وہ رہزن ہے پتھر بکھیرتا رہے گا
توں راہبر ہے ‘ قدم بڑھا اور چلتا چل
یہ پتھر کیا ہیں ‘ بھلا ان کی حقیقت کیاہے
شکستہ ہے جو تجھ کو توڑے گا کیا
اندھیرے سے تو خوف کھاتا ہے کیوں
کہ تو خود ہے اک ہالہء روشنی
کہاں دشت و صحرا، سمندر کہاں
کہاں تیری وسعت کی یہ رفعتیں
تیرے قدموں میں ہے سرنگوں ہمالہ کا سر
کرے گا تو تسخیر سب بحروبر
کرن پھوٹے گی تری ایک جنبشِ قلم سے
تو ٹوٹے گی ظلمت کی زنجیرِ آہن
ترے روبرو پیش کر دے گا سورج بھی اب روشنی
سلامی تجھے چاند بھی جھک کر کرے گا
یہ غازی جواں تیرے دست و بازو بنیں گے
تیری سوچ کا عکس اور آ رزو بنیں گے
بس، اب لیخدا کا نام ‘ علم اٹھا اور چلتا چل
تو ں راہبر ہے قدم بڑھا اور چلتا چل