اسلام آباد (نمائندہ پنڈی پوسٹ) نئی توشہ خانہ پالیسی کے تحت تمام سرکاری عہدیداروں بشمول حکمران سیاسی اشرافیہ، ارکان پارلیمنٹ، ججوں، جرنیلوں اور بیوروکریٹس پر لازم ہو چکا ہے کہ وہ ملنے والے تحائف 30 یوم کے اندر توشہ خانہ میں جمع کرا دیں بصورت دیگر پالیسی کی خلاف ورزی کرنے والے کو سخت کارروائی کا سامنا کرنا ہوگا۔پالیسی کا اعلان 8 مارچ کو کیا گیا ہے جس کے تحت تمام پرانے روُلز ختم کر دیے گئے ہیں جن کے تحت سرکاری عہدیدار تحفے کی تخمینے کی رقم کا 50؍ فیصد حصہ ادا کرکے اسے اپنے پاس رکھ سکتے تھے۔اب جس تحفے کی مالیت 300؍ ڈالر سے زیادہ ہوگی وہ سیدھا توشہ خانے میں جائے گا، اور جن تحائف کی قیمت 300؍ ڈالر سے کم ہوگی وہ تخمینے کی رقم کا پورا حصہ ادا کرکے (بغیر ڈسکاؤنٹ) اپنے پاس رکھا جا سکے گا۔ تاہم، یہ روُل ایسی اشیاء پر نہیں ہوگا جو نوادرات میں شامل کی جاتی ہیں یا پھر جو تاریخی لحاظ سے اہمیت کی حامل ہوں۔ایسے تمام تحائف کو باقاعدہ کیٹلاگ کیا جائے گا اور سرکاری عمارتوں میں نمایاں مقامات پر رکھا جائے گا۔ تاہم، ایسی اشیاء اپنے پاس رکھی جا سکیں گی جو Perishable (کھانے پینے کی) ہوں اور انہیں توشہ خانے کے ریکارڈ پر لانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اس بات کو یقینی بنانے کیلئے کہ ہر تحفے کا توشہ خانے میں باقاعدہ اندراج ہو، پالیسی میں کہا گیا ہے کہ وزارت خارجہ کے چیف آف پروٹوکول یا ان کا نمائندہ جو وزٹ کرنے والی شخصیت یا غیر ملکی وفد کے ساتھ جڑا ہو، اس بات کا ذمہ دار ہوگا کہ وہ ملنے والے تحائف کی فہرست اور ان افراد کے نام جنہیں یہ تحائف ملے ہیں، کابینہ ڈویژن میں جمع کرائے۔جن دیگر وفود یا وزٹنگ شخصیات کے ساتھ چیف آف پروٹوکول یا ان کا نمائندہ منسلک نہ ہو تو دورہ اسپانسر کرنے والی وزارت ملنے والے تحائف کے حوالے سے تفصیلات جمع کرانے کی پابند ہوگی۔ملکی شخصیات کے غیر ملکی دورے کی صورت میں متعلقہ ملک میں موجود پاکستانی سفیر یا مشن کے سربراہ کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ تحائف کی تفصیلات وزارت خزانہ کے توسط سے جمع کرائے۔ نئی پالیسی میں ماسوائے گریڈ ایک تا چار، تمام سرکاری عہدیداروں کیلئے آنے والی مہمان شخصیات سے نقد رقوم یا نقد تحائف لینا ممنوع ہوگا۔ ایسے تحائف کو شائستگی کے ساتھ معذرت کرتے ہوئے لینے سے انکار کیا جائے اور اگر انکار کرنے کی گنجائش نہ ہو تو یہ رقم فوری طور پر سرکاری خزانے میں جمع کرانا ہوگا اور اس کی رسید توشہ خانے کے انچارج (کابینہ ڈویژن) کو پیش کرنا ہوگی۔پالیسی کے تحت صدر اور سربراہِ حکومت کے سوا تمام عہدیداروں پر پابندی ہوگی کہ وہ پاکستان میں تعینات یا سفارت کاروں، قونصلرز یا دیگر غیر ملکی حکومتی نمائندوں یا پھر ملک کی کسی بھی سرکاری تنظیم، یا نجی شخص یا کمپنی سے اپنے لیے یا اپنی فیملی کے ارکان کیلئے تحفہ لیں۔ تاہم، اگر غیر معمولی وجوہات کی بناء پر تحفہ لینے سے انکار کرنا ممکن نہ ہو تو اسے توشہ خانے میں جمع کرانا ہوگا اور یہ حکومت کی پراپرٹی بن جائے گا۔صدر اور وزیراعظم یا پھر ان کے اہل خانہ کو اپنی ذات کیلئے ملنے والے تحائف بھی توشہ خانے میں جمع ہوں گے۔ تاہم، ان ہدایات کا اطلاق اداروں کو دیے جانے والے ڈونیشن پر نہیں ہوگا۔ پالیسی میں تحفے کی قیمت کا تخمینہ لگانے کیلئے بھی نیا میکنزم مرتب کیا گیا ہے۔توشہ خانے میں جمع کرایا جانے والا کوئی تحفہ جو نمائش کیلئے موزوں ہو لیکن اس کی نیلامی نہ ہو سکے تو ایسے تحائف کی موزوں انداز سے کیٹلاگنگ کرکے نمایاں سرکاری عمارات بشمول ایوانِ صدر، وزیراعظم آفس، پارلیمنٹ، خارجہ آفس، پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس اینڈ میوزیم میں نمائش کیلئے رکھا جائے گا۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان توشہ خانہ کا سالانہ آڈٹ کریں گے جہاں ہر چیز کی سالانہ بنیادوں پر سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران طبعی انسپکشن کابینہ ڈویژن کے مجاز افسر کے ذریعے ہوگی۔ کابینہ سیکریٹری وزیراعظم کی منظوری سے وضع کردہ پالیسی کے تحت یہ تحائف سرکاری عمارتوں میں نمائش کیلئے پیش کریں گے۔ایسے تحائف جو اپنے پاس نہیں رکھے جا سکتے، یا جن کا ڈونیشن نہیں دیا جا سکتا یا جنہیں نمائش کیلئے بھی نہیں رکھا جا سکتا انہیں مرحلہ وار عوام کیلئے نیلامی میں پیش کیا جائے گا جس کا انتظام کابینہ ڈویژن کرے گا۔نیلامی میں پیش کی جانے والی اشیاء کی مختصر تفصیل سرکردہ اخبارات میں شائع کی جائیں گی اور ساتھ ہی کابینہ ڈویژن کی ویب سائٹ پر جاری کی جائے گی۔ جو تحائف نیلامی میں فروخت کیے جائیں گے ان کی قیمت کا تخمینہ از سر نو لگایا جائے گا۔نئی پالیسی کا اطلاق صدر مملکت، وزیراعظم، ان کے اہل خانہ، چیئرمین سینیٹ، اسپیکر نیشنل اسمبلی، چیف جسٹس پاکستان، صوبائی گورنرز، وزرائے مملکت، وفاقی وزراء، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ، ڈپٹی اسپیکر نیشنل اسمبلی، وزیر کا عہدہ رکھنے والی شخصیات، صوبائی کابینہ کے ارکان، سپریم اور ہائی کورٹس کے ججز، ارکان پارلیمنٹ اور منتخب نمائندوں، سرکاری ملازمین (سول اور ملٹری) اور ساتھ ہی سرکاری کارپوریشنز، خود مختار اور نیم خود مختار اداروں کے ملازمین، ان کے شریک حیات اور زیر کفالت افراد، صوبائی حکومتی ارکان، غیر ملکی دوروں پر جانے والے سرکاری شخصیات، غیر ملکی شخصیات سے ملاقات کرنے والی شخصیات اور ساتھ ہی سرکاری وفود پر ہوگا۔
105