سرکاری سکولوں کی نجکاری کے خلاف پنجاب ٹیچر یونین کی سرپرستی میں اساتذہ نے باقاعد ہ مزا حمتی تحریک کا آغاز کر دیا ہے ابتدائی طور پر تحصیلوں کی سطح پر احتجاجی مظاہروں کا آغاز کیا گیا ہے اگلے مرحلے میں اساتذہ اس احتجاجی تحریک کو ضلعی سطح پر لے جائیں گے اس صورت میں
اساتذہ پنجاب بھر کے سرکاری سکولوں میں تعلیم و تدریس کے عمل کو معطل کر کے سرکاری سکولوں کی نجکاری کے خلاف سڑکوں پر سراپاء احتجاج ہو ں گے پنجاب ٹیچرزیونین کے مطابق یہ احتجاج اُس وقت تک جاری رہے گا جب تک محکمہ کی جانب سے سرکاری تعلیمی اداروں کی نجکاری کا فیصلہ واپس نہیں لے لیا جاتا قارئین کی معلومات کے لئے بتاتا چلوں کے محکمہ تعلیم کی جانب سے پنجاب بھر میں لگ بھگ پانچ ہزار سرکاری سکولوں کوPEFپنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے PEFان سرکاری سکولوں کو پرائیویٹ پارٹیز کے حوالے کرے گی بد ترین کارکر دگی دکھانے والے سکولوں کو اس عمل کے ذریعے بہتری کی طرف لے جانے کی سعی کی جائے گی طلباء پر اُٹھنے والے تعلیمی اخراجات حکومت برداشت کرے گی اس پالیسی کا اطلاق عملی طور پر اپریل 2016سے ہو گا سرکاری سکولوں کے اساتذہ کو نجکاری کے اس عمل سے نہ صرف اختلاف ہے بلکہ وہ اسے اساتذہ کے معاشی قتل سے تعبیر کر رہے ہیں اساتذہ کاکہنا ہے کہ سرکاری سکولوں میں سہولیات کا فقدان ،سٹاف کی کمی سرکاری سکولوں میں زیرِ تعلیم غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کے مسائل سرکاری مہموں میں اساتذہ کی شمولیت جیسے بہت سے اسباب ہیں جو تعلیمی اداروں کے نتائج پر اثر انداز ہوتے ہیں ، سہولیات کی فراہم کی جائیں ، سٹاف کی کمی دور کی جائے ، اور اساتذہ کو دیگر سرکاری کاموں میں نہ گھسیٹا جائے تو یہی ادارے بہترین نتائج دینے کی اہلیت رکھتے ہیں تمام اداروں کے نتائج پست نہیں ہوتے یہ بات درست ہے کہ بعض ادارے اچھے نتائج نہیں دے پاتے مگر ان کے اسباب اور زمینی حقائق کو جاننے اور ان اداروں کودرپیش مسائل کو دور کرنے کی بجائے ان پر نجکاری کی لاٹھی چلانا ظلم ہے ۔ اساتذہ کو خدشات لاحق ہیں کہ تعلیمی اداروں کی نجکاری کی آڑ میں درحقیقت طلبہ پربھاری فیسوں کا بوجھ لادھنے ،اساتذہ کو ان کی نوکریوں سے فارغ کرنے ، سرکاری زمینوں کو ہتھیانے اور اپنوں کو نوازنے کی سازش کی جاری رہی ہے ۔ اسی ضمن میں ممبر صوبائی اسمبلی چئیرمین سٹینڈنگ کمیٹی فار ایجوکیشن قمر الاسلام راجہ جوPEF سے بھی تعلق رکھتے ہیں مختلف میڈیا فورمز پر حکومتی موقف بیان کر چکے ہیں ان کا کہنا ہے کہ PEFایک ایسا ادارہ جو فروغ تعلیم کیلئے بہترین کردار اداکر رہا ہے پسمانہ اوردور افتادہ علاقوں تک اس کے ثمرات پہنچے ہیں اس سے منسلک تعلیمی اداروں کے نتائج کم از کم پچھتر فیصد ہیں پنجاب کے ایسے سرکاری سکولز جن کی کارکردگی صفر ہے PEF کے حوالے کئے جارہے ہیں اس عمل میں نہ تو اساتذہ کے ساتھ کوئی زیادتی ہو گی نہ طلباء پر فیسوں کا بوجھ ڈالا جائے گا اور نہ ہی سرکاری زمینوں یا املاک کو ہتھیانے کا کوئی احتمال ہے شفاف طریقہ کار کے ذریعے یہ سکولز پرائیویٹ پارٹیز کے حوالے کئے جائیں گے اگر پرائیویٹ انتظامیہ اور اساتذہ باہم متفق ہوئے تو اساتذہ انہی سکولوں میں فریضہ ء معلمی انجام دیں گے بصورت دیگر انہیں ان کے نزدیکی سکولوں میں تعینات کر دیا جائیگا ، پرائیویٹ پارٹیز کو طلباء و طالبات کی فیس سرکار ادا کرے گی ، سرکاری زمینیں اور املاک ہمیشہ سرکار کی تحویل میں رہیں گی ۔ دونوں اطراف کا موقف جاننے کے بعد کسی نتیجے پر نہیں پہنچا جا سکتا ایک طرف تو حکومتی موقف تصویر کا خوبصورت رُخ پیش کرتا ہے جو غریب کے بچوں کو معیاری تعلیم دینے کا آئینہ دار نظر آتا ہے جبکہ اساتذہ کو طلبہ ء طالبات پر فیسوں کے بوجھ ، سرکاری زمینوں کو ہتھانے ،کم تنخواہوں پر کام کرنے اور انکی چھٹی سمیت بہت سے اندیشوں نے گھیر رکھا ہے حکومتی اور اساتذہ کی جانب سے دکھائی جانے والی تصویر کے رُخ آپس میں یکسر مختلف ہیں دیکھنا یہ ہے مستقبل قریب میں کونسا رخ ابتری کا شکار سرکاری تعلیمی اداروں کی نجکاری کا اصل چہرہ ثابت ہوتا ہے ۔{jcomments on}