columns 123

تشدد اور آنسو گیس کا استعمال

جب بھی وطن میں کچھ ایسا ہوتا ہے کہ عوام پر کوئی آنچ آتی ہے ان پر ظلم ہوتا ہے تو سخت تکلیف محسوس ہوتی ہے جب بھی احتجاج ہوتا ہے دھرنے ہوں یا جلسے ہوں ایک عجیب سا ماحول بن جاتا ہے سڑکیں بند ہو جاتی ہیں ہر طرف کنٹینرز لگ جاتے ہیں جلاؤ گھیراؤ کی فضا پیدا ہو جاتی ہے گاڑیوں کے شیشے توڑئے جاتے ہیں املاک کو نقصان پہنچایا جاتا ہے لوگ ایک دوسرے سے الجھ جاتے ہیں باہم دست وگریبان ہو جاتے ہیں ایسا کیوں ہوتا ہے؟اس لئے کہ ایک دوسرے سے سیاسی اختلاف ہوتے ہیں جمہوریت تو نام اختلاف رائے کو احسن طریقے سے برداشت کرنے کا ہے سب کے نظریات کا احترام کرنا چاہیے مسلم لیگ ن‘تحریک انصاف‘پیپلزپارٹی‘جماعت اسلامی‘اے این پی‘ایم کیو ایم اور دیگر سیاسی جماعتیں ہیں محض اختلاف کی بنا ء پر نفرت کی آگ نہیں پھیلانی چاہیے ذاتی طور پر دھرنے کوئی پسندیدہ کام نہیں کیونکہ ان سے سڑکیں بلاک ہو جاتی ہیں اور لوگوں کی زندگی مفلوج ہو کر رہ جاتی ہے تاہم یہ سب کا جمہوری حق ہے کہ وہ اپنی بات کر سکتے ہیں احتجاج کر سکتے ہیں البتہ احتجاج اور جلسوں کے کچھ آداب ہوتے ہیں ہمیں خود بھی خیال کرنا چاہیے کہ احتجاج میں عام لوگوں کیلئے سڑکیں بلاک نہ کی جائیں اور کسی جگہ پر آگ نہ لگائی جائے خاص طور پر ٹائر نہ جلائے جائیں کیونکہ یہ شدید ماحولیاتی آلودگی کا بنتے ہیں اسی طرح کسی بھی طرح کا تشدد بھی نہیں کرنا چاہیے دکانوں‘گاڑیوں‘دفتروں اور عوامی مقامات کو نقصان نہ پہنچایا جائے دھرنوں اور جلسوں میں شریک عوام اور خصوصا خواتین اور بچوں کا احترام کیا جائے قانون کا نفاذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون کیا جائے اور سرکاری ملازمین بالخصوص پولیس اہلکاروں کا احترام کیا جائے اور سیاسی مخالفین کی کردار کشی نہ کی جائے دوسری طرف حکومت اور پولیس کا بھی فرض بنتا ہے کہ عوام کو پرامن احتجاج کرنے دیں ان کے راستے بلاک نہ کریں کنٹینرز نہ لگائیں ان پر لاٹھی چارج نہ کریں اور آنسو گیس کا استعمال ترک کر دیں کیونکہ یہ آنسو گیس کورونا متاثرین اور دمہ و الرجی کے مریضوں کیلئے زہر قاتل ثابت ہو سکتی ہے لاٹھی چارج سے ہونے والے فریکچرز اور زخم کئی ماہ بعد بھرتے ہیں اسی طرح آنسو گیس سے گلے‘ناک‘آنکھوں اور پھیپھڑوں پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں ان سے متعدد دیگر بیماریاں ہونے کا خدشہ لاحق ہو جاتا ہے آنسو گیس ماحول کیلئے بھی خطرناک ثابت ہوتا ہے اور آلودگی کا باعث بنتی ہے پولیس جب سیاسی مظاہرین پر تشدد کرتی ہے ان کو حوالات میں بند کر دیتی ہے تو اس سے عوام میں پولیس سے نفرت پیدا ہوتی ہے پولیس کا سیاسی استعمال بند ہونا چاہیے خود پولیس اہلکاروں کا بہت استحصال ہوتا ہے ان سے اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کرایا جاتا ہے اور ان کی تنخواہیں مراعات اور سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے حوالے سے جو کچھ پورے ملک میں دیکھنے میں آیا بہت افسوسناک تھا ہر اس چیز کی مذمت کرنی چاہیے جو تشدد کے زمرے میں آتی ہے اور ہر اس واقعے پر افسوس کرنا چاہیے جس میں کسی شہری کا نقصان ہو گاڑیوں پر حملے کئے گئے یہ حملہ آور کون لوگ ہیں؟یہ لوگ پولیس کے ساتھ ہوتے ہیں یا یہ کوئی بدمعاش ٹولہ ہے جو سادہ کپڑوں میں لوگوں پر حملہ آور ہو جاتا ہے اور جس کا مشغلہ گاڑیوں کے شیشے توڑنا ہے شاید ہماری سیاسی اشرافیہ کو یہ بات معلوم ہی ہو گی کہ ایک گاڑی خریدنے میں عوام کی ساری زندگی لگ جاتی ہے اس کو اگر کوئی توڑ دے یا آگ لگا دے تو لوگوں کو ساری عمر کا صدمہ لگ جاتا ہے اسی طرح پولیس کی طرف سے عوام پر
تشدد لوگوں کو سیکورٹی اداروں سے دور کر رہا ہے خدارا مظاہرین کو پر امن احتجاج کرنے دیں جب لانگ مارچ شروع ہوا تو پولیس نے ہر جگہ ناکہ بندی کر دی بہت سی جگہوں پر لاٹھی چارج ہوا آنسو گیس کا تو ایسے استعمال ہوا جیسے یہ سیاسی ورکرز نہیں وطن دشمن ہوں اڑتالیس گھنٹے سے زائد پورا ملک میدان جنگ کا نقشہ پیش کرتا رہاپی ٹی آئی کوئی کالعدم تنظیم نہیں جو اس کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھا گیا پنجاب میں پولیس نے رات کے اندھیرے میں لوگوں کے گھروں میں گھسنے کی کوشش کی بارہااعلیٰ حکام کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا کہ دہشت گردی جیسے سنگین الزامات کے علاوہ دن میں وارنٹ کے ساتھ گرفتاری کی جائے گی لیکن عملی طور پر یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ سیاسی مخالفین کو بھی رات کو گرفتار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اس کا مقصد اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ عوام کو ہراساں کیا جائے سیاسی ورکرز کوئی دہشت گرد نہیں جو یوں ان کے گھروں پر چھاپے مارے جائیں سوشل میڈیا پر درجنوں وڈیوز موجود ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خواتین اور بچے پولیس کے یوں دھاوا بولنے پر روتے چیختے رہے جسٹس ریٹائرڈ ناصر ہ جاوید کے گھر میں پولیس گھس گئی ان کے گھر کا دروازہ توڑ دیا گیا اور چادر اور چار دیواری کاتقدس پامال کیا گیا ایسے ہی اقدامات کی وجہ عوام میں بددلی اور خوف وہراس پھیلتا ہے یہ بالکل نہیں ہونا چاہیے تھا اسی طرح رات کے چھاپے کے دوران ایک اہلکار کو ایک شہری نے گولی مار دی یہ بہت افسوسناک واقعہ ہے پی ٹی آئی کے دو ورکرز بھی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ایک سیاسی احتجاج نے کئی لوگوں کی جانیں لے لیں ان کے گھر والے بے آسرا ہو کر رہ گئے ہلاک ہونے والے افراد کی موت پر خوب سیاست ہوئی لیکن کچھ دن بعد سب انہیں بھول جائیں گے اور ان کے اہل خانہ تڑپتے رہیں گے عوام کو پولیس کے ذریعے ہراساں کرنا ایک سنگین جرم ہے آخر ہماری سیاسی اشرافیہ کو کب عقل آئے گی وہ عوام اور اداروں کو مدمقابل نہ لائیں ان کو آپس میں نہ لڑائیں یہ جو کچھ ہوا ہم سب کو اس پر سوچ بچار کرنے کی ضرورت ہے مسائل کا حل بات چیت اور مذاکرات سے نکالیں ہنگامہ آرائی سے مسئلہ حل نہیں ہوتے ایک وزیراعظم ایک حکومت کو پانچ سال پورے کرنے دیں جمہوریت ہمیں اختلاف رائے کا حق دیتی ہے اگر پرامن طریقے سے احتجاج کرناہر سیاسی جماعت کا آئینی و قانونی حق ہے تو پھر یہ گرفتاریاں‘یہ چھاپے کیوں؟تشدد اور آنسو گیس کا استعمال کیوں؟اس وقت حکومت کی ساری توجہ اپوزیشن سے نمٹنے پر لگی ہوئی ہے اپوزیشن کو احتجاج کرنے دیں اور خود حکومتی اور عوامی معاملات پر توجہ دیں حکومت اور اپوزیشن دونوں ایک دوسرے سے لڑ رہی ہیں جلسے ہوں یا پریس کانفرنسز یا پھرسوشل میڈیا ایک دوسرے پر الزامات کی بارش جاری ہے یہ ملک ہم سب کا ہے ہم سب محب وطن ہیں اختلاف رائے جمہوریت کا ھسن ہے لوگوں سے بات کرنے کی آزادی نہ چھینیں

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں