152

ترقی کا سفر ابھی جاری ہے

عبدالخطیب چوہدری
عیدالاضحٰی سے تین دن قبل قربانی کے جانور کی خریداری کے سلسلہ سے جڑواں شہر کے پوش علاقہ میں روڈ کنارے سجی منڈی میں جانے کا اتفاق ہوا جس کے بارے میں علم ہوا تھا کہ یہاں خوبصورت اور اعلیٰ نسل کے جانور ہیں لاریب یہاں جانور خوبصورتی کے لحاظ سے اپنی مثال آپ تھے.

قیمتوں کا موازنہ کرنے اور پسند کا جانور ڈھونڈنے کے لیے منڈی کا ایک چکر لگایا بلآخر ایک بیل پسند آنے پر بھاؤ تاؤ کرکے سودا طے ہو گیا رقم کی ادائیگی کے لیے الگ سے خیمہ میں بنائے گئے کاؤنٹر میں گیا وہاں سفید ٹوپی پہنے باریش بابا جی بیٹھے بل بنا رہے تھے بل بنوانے کے لیے میں نے نام بولا تو میری طرف متوجہ ہوئے اور غور سے میرا منہ دیکھنے لگے اور پھر ایڈریس لکھوانے پر بابا جی مزید سنجیدہ ہو کر گویا ہوئے کہ آپ موہڑہ بھٹاں کے رہائشی ہی عبدالخطیب ہیں میرے سر ہلانے پر انہوں نے اٹھ کر مصافحہ کیا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ میرا نام قاری رشید احمد نقشبندی ہے پنڈی گھیپ کا رہائشی ہوں

1990.ء میں آپ کے گاؤں میں ایک سال تک امامت کے فرائض سرانجام دیتا رہا ہوں آپ مسجد میں نماز اور قران پاک کی تعلیم کے لیے آیا کرتے تھے یہ سن کر میں نے بھی پہچان لیا اور ساتھ ہی ماضی کے دریچوں میں گم ہوگیا مجھے یاد آرہا رہا تھا کہ قاری صاحب جیسے ہی نماز اور درس و تدریس سے فارع ہوتے اپنا وقت گپ شپ میں ضائع کیے بغیر ہی مسجد کے ساتھ ہی بنے حجرہ (رہائش گاہ)میں چلے جاتے اور وہاں کپڑوں کی سلائی کا کام شروع کر دیتے

کالم نگار کی دیگر تحریریں پڑھیں

گھڑیوں کا کام جاننے کی وجہ سے گاہے گاہے گھڑی بھی ٹھیک ہونے کے لیے آجایا کرتی تھی مناسب ریٹ کی وجہ سے کپڑوں کی سلائی کا کام کافی زیادہ ہوجایا کرتا تھا میں چونکہ اس وقت میٹرک یا گیارہویں جماعت کا طالب علم تھا نماز کے بعد اکثر ان کے پاس بیٹھ کر ان کو کام کرتے ہوئے دیکھ کر محظوظ ہوا کرتا تھا

ابھی اسی سوچ میں تھا کہ قاری صاحب نے کہا کہ آپ تشریف رکھیں سخت گرمی ہے پہلے فروٹ جوس پی لیتے ہیں پھر بل کا معاملہ بعد میں کرلینگے میں شکریہ ادا کرتے ہوئے کرسی پہ بیٹھ گیا میں ان سے امامت سے بیوپار کا سفر جاننے کے تجسس میں تھا کہ میری پہلی ہی بات سے وہ سمجھ گئے کہنے لگے کہ آپ کے گاؤں میں ایک سال گزارنے کے بعد یہاں راولپنڈی شہر کی مسجد میں امامت ملی گئی چھ ماہ میں ہی یہاں کے باسیوں سے اچھے تعلق استوار ہوگئے بازار میں ایک فلاحی تنظیم کا دفتر تھا.

جو نوجوانوں بلخصوص بے روزگار افراد کو روزگار کی فراہمی کے لیے قرض حسنہ دیتی تھی میرا اکثر دفتر میں آنا جانا رہتاتھا صدر تنظیم نے مجھے پیشکش کی کہ قاری صاحب آپ نماز کے اوقات کے علاوہ فارغ ہوتے ہیں ہم نے محسوس کیا ہے کہ آ پ میں کاروبار کا رحجان موجود ہے اگر آپ اپنا کوئی چھوٹا کاروبار شروع کرنا چاہیں تو تنظیم آپ کی مالی امداد کرسکتی ہے .

ساتھ ہی انہوں نے تجویز پیش کی کہ آپ مارکیٹ سے تھوک میں شاپر بیگ لاکر دوکانداروں کو کلو کے حساب سے فروخت کریں تو آپ اچھی خاص دیہاڑی لگا کر دن ایک بجے تک مارکیٹ سے فارغ ہوکر نماز ظہر کی جماعت بھی کرواسکتے ہیں میں نے ان کی آفر کو قبول کرتے ہوئے چند ہزار کی رقم سے ہول سیلر مارکیٹ سے شاپر لیکر گردونواح کی مارکیٹوں کے دکانداروں کو سپلائی شروع کردی ایک سال میں میرا اچھا خاصا کاروبار ہوگیا

میں صبح کی نماز اور بچوں کو قرآن کی تعلیم دینے کے بعد آرام کرنے یا سونے کی بجائے مارکیٹ میں جاتا اور ظہر سے قبل ہی اپنا کام ختم کرکے امامت کی ذمہ داری سرانجام دے لیتا ایک برس کی قلیل مدت میں مارکیٹ میں نام و اعتماد بننے کی بناء پر بازار کے ایک تاجر نے آفر کی کہ قاری صاحب آپ ہمارے دیسی گھی اور مکھن کی سیل و مارکیٹنگ کریں آپ کو اچھا معاوضہ و کمیشن ملے گا.

یہ میرے لیے ایک بڑی اہم اور اچھی آفر تھی میں نے اس کو قبول کرتے ہوئے ان کے ساتھ کا کام شروع کیا تو اللہ تعالیٰ نے بہت برکت ڈالی پانچ چھ سال ان کے ساتھ کام کرنے کے بعد یہ سوچ پیدا ہوئی کہ اس نوعیت کا اپنا کاروبار شروع کیا جائے چونکہ ہمارا خاندانی پس منظر دیہات سے ہے اور آبائی گھر بھی گاؤں میں ہونے کی وجہ سے تھوڑی بہت اپنی زمین بھی تھی.

وہاں چھوٹے بھائی کے مشورہ و تعاون سے ہم نے چار گائیں لیکر اپنے ڈیری فارم کا آغاز کردیا دودھ کو فروخت کرنے کی بجائے گھی اور مکھن کو ہی ترجیح دی پچھلے سات برس سے اب ہم اپنے فارم اور اپنے نام ولوگو سے مارکیٹ میں گھی و مکھن فروخت کررہے ہیں گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے پاس جانوروں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا رہا اپنی جگہ کم پڑنے پر کچھ زمین ٹھیکے پر لیکر فارم کو بھی وسیع کرلیا ہے.

اب گزشتہ دو برس اپنے فارم کے بیلوں کو قربانی کے لیے منڈی میں لا رہے ہیں اللہ کا شکر ہے کہ ہمارا کاروبار لاکھوں میں چلا گیا ہے ڈیری فارم میں بھی پندرہ سے بیس بندوں کو روزگار ملا ہوا ہے اور اتنے ہی لوگ گھی اور مکھن کی فروخت کا کام مارکیٹ میں کررہے ہیں میرے پوچھنے پر انہوں بتایا کہ جی میں امامت کی ذمہ داری بھی تاحال سرانجام دے رہا ہوں الحمداللہ اپنے علاقہ میں ایک دینی درس گاہ بھی شروع کرچکا ہوں جس میں ایک سو زائد طلباء زیر تعلیم ہیں جو کہ میرے لیے اعزاز ہے.

ان کی باتیں سنتے ہوئے میرا چہرہ بھی خوشی سے کھلکھلا رہا تھا کامیابی کا راز پوچھنے پر وہ گویا ہوئے کہ ہمارے علاقہ کی یہ خوشی قسمتی ہے کہ یہاں کے لوگ فی سبیل اللہ کروڑوں روپے لگا کر شاندار مساجد تعمیر کرواتے ہیں ان میں نمازیوں کی آسانیوں کے لیے ہر سہولت مہیا کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ان مساجد میں امامت کے فرائض سرانجام دینے والے امام کی خدمت یا معاوضہ صرف دس سے پندرہ ہزار روپے دیا جاتا ہے.

جس سے گزارہ ہونا انتہائی مشکل ہوتا ہے ہمارے ان قاری اور حفاظ صاحبان کے پاس نماز پڑھانے کے علاوہ اپنی ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لیے کوئی اور ہنر نہیں نہ ہی ان کو اپنا کاروبار کرنے کی تربیت کی ہوتی ہے جس کی بناء پر ہمارے امام حضرات چوبیس گھنٹے مساجد کے ہو کر رہ جاتے ہیں جب کہ ان کے پاس صبح نماز سے ظہر تک کافی زیادہ وقت ہوتا ہے.

اگر اس وقت کو اپنی صلاحیت کے مطابق اپنا کاروبار یا مختصر دورانیے کی ملازمت یا پرائیویٹ نوکری کرلیں تو کافی حد تک اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکتے ہیں چونکہ میں نے قاری ہونے کے ناطے اور والدین کی خواہش کے مطابق امامت اور دین کی خدمت کرنا میرا شوق اور اولین ذمہ داری ہے لیکن میں نے اس کو پیشہ کے طور نہ اپنایا بلکہ اپنا کاروبار اور ہنر سیکھنا میرا مشن تھا.

جس کے لیے میں نماز کے بعد کے وقت کو سو کر فضول گپ شپ اور مارکیٹ میں بیٹھ کر ضائع نہیں کیا تو پھر اللہ تعالی نے میرے لیے ترقی کے اسباب بھی پیدا کیے اج الحمداللہ میں دین کی خدمت کے ساتھ ساتھ ایک بڑا تاجر بھی ہوں اللہ تعالی نے لوگوں کو ملازمت مہیا کرنے کا وسیلہ بھی بنایا ہوا ہے میری ترقی کا سفر ابھی جاری ہے…

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں