242

ترقیاتی کمیٹیوں کے بے تاج بادشاہ

آصف شاہ‘ نمائندہ پنڈی پوسٹ
سیاست اور سیاسی پارٹیوں کو مضبوط کرنے کا سہرا ہمیشہ سے بنیادی سطح کی سیاست کے سر رہا ہے گزشتہ الیکشن میں تبدیلی سرکار نے بھی گراس روٹ کی سیاست کو مضبوط کرنے کا عندیہ دیا تھا لیکن تاحال مشکلات میں پھنسی سرکار اس حوالہ سے کچھ نہ کر سکی گوکہ چند ہفتے قبل بلدیاتی نمائندوں کو ختم کرنے اور نئے انتخابات کے حکومتی اعلان نے سیاست میں وقتی ہلچل ضرور مچائی لیکن عدالت نے اس پر عملدرآمد فی الحال روک دیا دوسری جانب الیکشن کمیشن نے نئی حلقہ بندیوں کے باعث نئے اتخابات کو کم از کم ایک سال کا وقت مانگ لیا اس وقت این اے 57 میں صداقت عباسی چومکھی لڑائی لڑنے میں مصروف ہیں انہوں نے حلقہ کی عوام کو کمیٹی کمیٹی کے خوبصورت کھیل میں مصروف کر دیا اور خود تماشا دیکھنے میں مصروف ہیں ان کی موجودہ سیاست کو دیکھ کر ایک کہانی زہن میں آجاتی ہے کہ کسی جنگل میں جانوروں نے مکمل مشاورت سے گلہری ((گالڑ)) کو بادشاہ بنا دیا چند دن جنگل کے جانوروں کے قبیلوں کی دعوتوں کے بعد ایک دن گالڑ آرام کر ریا تھا کہ ایک بندرچیختا چلاتا آگیا اور کہنے لگی بادشاہ سلامت میرے بچے شکاریوں نے اٹھا لیے ہیں کچھ کیجیے گالڑ نے کچھ سوچا پھر بندرکو کہنے لگا کہ بیٹھو میں آیا یہ کہ کر اس نے ایک درخت سے دوسرے دوسرے سے تیسرے درخت پر چھلانگیں لگانی شروع کر دی بندر یہ منظر دیکھ رہا تھا اور بولا حضور میرے گمشدہ بچوں کا کیا ہوابادشاہ سلامت گالڑ نے کیا خوبصورت جواب دیا کہ دیکھو میں بھاگ دوڑ کر ریا ہوں اسطرح کے سیاسی معاملات مختلف یوسیز میں چل رہے ہیں جہاں عوام کو کچھ دیا نہیں جا رہا ہے لیکن ان یوسیز میں چھلانگے لگانے والے ایک سے بڑھ کر ایک ہیں گزشتہ الیکشن میں تحریک انصاف نے جو نظریاتی کارکنان کو نظر انداز کرکے الیکٹیبلز کو جو ٹکٹ دینے کا سیاسی فیصلہ کیا تھا اب منتخب نمائندے بھی اسی روش پر چل پڑے ہیں زکوۃ کمیٹیاں ہوں یا کوئی اور کمیٹی منتخب نمائندگان نے ایسے لوگوں کو سامنے لانا شروع کردیا ہے جن کا تعلق دوسری سیاسی پارٹیوں سے ہے یا ایسے جنہوں نے اب تک پارٹی کے لیے زمینی رول پر چار آنے کاکام نہیں کیا لیکن وہ اس وقت کھڑپینچ بنے ہوئے ہیں دوسری طرف پارٹی کے لیے دن رات ایک کرگزرنے والے اس وقت خالی ہاتھ ہیں انہیں یا تو ایسا عہدہ دیا گیا ہے جو کسی کام کا ہے نہ کاج کا یا پھر سوکھے تے مل ماہیاء والی مثال بنے ہوئے ہیں
اب ایک نظر قانو گو ساگری پر جہاں پر لیڈران کی اتنی بڑی تعداد موجود ہے کہ شائید تحریک انصاف کو اتنی قابل لیڈر شپ ایکسپورٹ کرنی پڑے جہاں پر کام کم اور فوٹو سیشن کا رواج سب سے زیادہ ہے لیکن کام کی حالت زیرو سے بھی نیچے ہے اسی قانو گو کی ایک روڈ جو مانکیالہ سٹوپہ تا میں جی ٹی روڈ ہے اس کی حالت انتہائی خراب ہوچکی ہے کہ اس پر سفر کرنا مشکل ہے یہ واحد روڈ ہے جس پر پوری دنیاء سے بدھ مت کو ماننے والے ایک نہ ایک بار ضرور وزٹ کرتے ہیں اور یقینا اس روڈ کی حالت زار کو بھی اپنی حکومت کے سامنے رکھتے ہیں جبھی اس پر عالمی آثار قدیمہ نے اس روڈ کوبنانے کے لیے زاتی دلچسپی لی لیکن مقامی سیاسی کھینچا تانی نے اس پر بھی پانی پھیر دیا میں نے اس مسلے کو زاتی طور صداقت عباسی کے سامنے رکھااور انہوں نے اس کے حوالہ سے مکمل کاغذات مانگے اور وعدہ کیا کہ وہ اس کو مکمل کروائیں گے لیکن اس حوالہ سے تاحال خاموشی نظر آرہی ہے دوسری جانب اس روڈپردیہاڑی دار سوزوکی ڈرائیوروں منتخب نمائندوں کے منہ پر تمانچا مارتے ہوئے اپنی مدد آپ کے تحت پیسے جمع کر کے اس کو گزرنے کے قابل بنانے کی کوشش کی ہے لیکن قانو گو ساگری میں موجود مقامی لیڈران ہر
حوالہ سے خاموش نظر آتے ہیں

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں