839

تحریک ختم نبوت کا آغاز و انجام

تحریر:محمد شہزاد نقشبندی/مسلمانوں کا یہ مسلمہ عقیدہ اور اجماع امت ہے کہ اللہ تعالی نے انسانیت کی ہدایت و راہنمائی کے لیے انبیاء کرام و رسل عظام علیہم السلام کا جو سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع کیا تھا وہ آکر حضرت محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوگیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کے آخری نبی اور رسول ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی بھی شخص کسی بھی معنی و مفہوم(امتی نبی‘ ظلی‘ نبی‘بروزی نبی) میں نبوت کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ جھوٹا مکار گمراہ کافر اور مرتد ہے ہندوستان کے ضلع گرداس پور کے علاقہ قادیان میں ایک شخص 1935 کے لگ بھگ پیدا ہوا جس کا نام غلام احمد تھا اس نے1889 کے بعد مختلف دعوے مجدد‘ محدث ‘مسیح وغیرہ کیے اور آخر کار خاتم النبیین کی مہر توڑ کر اللہ کی ان پاکیزہ ہستیوں میں شامل ہونے کی مذموم اور گھناونی کوشش کی اپنے آپ کو( نعوذباللہ نقل کفر کفر نہ باشد ) اللہ کا نبی اور رسول بنا کر پیش کیا بہت سارے کمزور ایمان اور جاہل اللہ کی رحمت سے دور لوگ اپنے ایمان سے ہاتھ دھو کر اس کے پیروکار بن گئے اس صورت حال نے علمائے کرام کو تشویش میں مبتلا کردیا اور وہ اس کے باطل اور من گھڑت عقائد کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوگئے مولانا ثنااللہ امرتسری‘ محمد حسین بٹالوی‘ مولانا احمد رضا خان بریلوی‘ پیر سید مہر علی شاہ اور دیگر کئی جید علمائے کرام نے اس کے باطل عقائد کی کلی کھول کر رکھ دی اور ببانگ دہل اعلان کیا کہ اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں وہ گمراہ ‘مرتد اور کافر ہے قادیانیوں کی ریشہ دوانیوں کو دیکھ کر حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے اس وقت کی برٹش گورنمنٹ سے مطالبہ کیا تھا کہ” میری رائے میں حکومت کے لئے بہترین طریقہ کار یہ ہوگا کہ وہ قادیانیوں کو ایک الگ جماعت تسلیم کرے یہ قادیانیوں کی پالیسی کے عین مطابق ہے مسلمان ان سے ویسے ہی رواداری سے کام لیں گے جیسے وہ دیگر مذاہب کے بارے میں اختیار کرتے ہیں”( قادیانی فتنہ اور ملت اسلامیہ کا موقف ص ) حکومت ٹس سے مس نہیں ہوئی کچھ عرصہ بعد پاکستان معرض وجود میں آگیا تو قادیانیوں کی سرگرمیاں اور بڑھ گئی ان کے دوسرے خلیفہ مرزا بشیرالدین نے اعلان کیا کہ بلوچستان کو قادیانی صوبہ بنائیں گے اور ساتھ ہی ظفر اللہ خان کو پاکستان کا وزیر خارجہ بنا دیا گیا جو ایک کٹر قادیانی تھا اسی طرح دیگر قادیانی افراد بھی کلیدی عہدوں پر فائز ہوئے تو مسلمانان پاکستان میں اضطراب پیدا ہوگیا 18 جنوری 1953 کو کراچی میں تحریک تحفظ ختم نبوت قائم کی گی جس کا صدر سید ابوالحسنات قادری کو بنایا گیا تحریک تحفظ ختم نبوت کے ایک وفد نے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین سے ملاقات کی اور ان کے سامنے دو مطالبات رکھے نمبر 1 قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا جائے نمبر 2 وزیر خارجہ ظفراللہ خان سمیت اعلیٰ عہدوں پر فائز قادیانیوں کو برطرف کیا جائے لیکن وزیر اعظم نے مطالبات ماننے سے انکار کر دیا تین مارچ کو تحریک کا آغاز ہوا جگہ جگہ شمع رسالت کے پروانوں نے جلسے و جلوس شروع کر دیے گورنمنٹ نے ان کو روکنے کے لئے کرفیو نافذ کردیا لیکن شمع رسالت کے پروانے کہاں گھر بیٹھنے والے تھے اس خلاف ورزی پر تقریبا دس ہزار لوگوں نے تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی جانوں کو نچھاور کیا جماعت اسلامی کے بانی مولانا ابوالاعلی مودودی صاحب اور مولانا عبدالستار خان نیازی صاحب کو سزائے موت سنا دی گئی اور تمام قیادت کو نظر بند کر دیا گیا اس طرح یہ تحریک وقتی طور پر ختم ہو گئی 22 مئی 1974 کو نشتر میڈیکل کالج ملتان کے طلباء چناب ایکسپریس کے ذریعے پشاور جا رہے تھے راستے میں ربوہ کے مقام پر ٹرین رکی تو قادیانیوں نے اپنا لٹریچر تقسیم کیا طلباءنے ختم نبوت زندہ باد کے نعرے لگانا شروع کر دئیے معمولی تلخ کلامی ہوئی جب وہی طلباءواپس آئے تو قادیانی بدمعاشوں اور اوباش لڑکوں نے پہلے طلباءپر شدید قسم کا تشدد اور پتھراو¿ کیا طلباءشدید زخمی ہوئے جس پر تمام ملک میں شدید احتجاج شروع ہو گیا 14 جون کو آل پاکستان ہڑتال کی کال دی گئی ہڑتال انتہائی کامیاب رہی 30جون1974 کو مولانا الشاہ احمد نورانی صدیقی نے قومی اسمبلی میں قادیانیوں کے خلاف قرارداد پیش کی کہ” یہ لوگ مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی مانتے ہیں جب کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی اور رسول ہیں لہذا اس باطل عقیدے کی بنا پر احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے ” قومی اسمبلی نے اس معاملے کی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے پارلیمنٹ میں اس کو زیر بحث لانے کا پروگرام بنایا ساتھ ہی اس بات کا خیال رکھا کہ اس کو ایسے طریقے سے حل کیا جائے کہ دنیا کے دوسرے ممالک بھی اس پر انگلی نہ اٹھا سکیں آخر کار یہ فیصلہ ہوا کہ قادیانیوں کے دونوں گروہوں کو پارلیمنٹ میں بلوا کر ان کو اپنا موقف سب کے سامنے پیش کرنے کا موقع دیا جائے لیکن مسئلہ یہ تھا کہ وہ پارلیمنٹ کے رکن نہیں تھے اس لئے وہ اجلاس میں شرکت نہیں کر سکتے تھے اس مسئلہ کا یہ حل نکالا گیا کہ ایک” خصوصی کمیٹی برائے بحث قادیانی ایشو” بنائی گئی پارلیمنٹ کے تمام ممبران کو اس خصوصی کمیٹی کا ممبر بنا دیا گیا اس طرح غیر ممبران کو قومی اسمبلی میں بلانے کا راستہ نکالا لیا گیا قادیانیوں کے دونوں گروہوں کو دعوت دی گئی ایک گروہ کی طرف سے مرزا ناصر احمد پیش ہوا جو مرزا غلام احمد قادیانی کا پوتا اور تیسرا خلیفہ تھا دوسرے لاہوری گروپ کی طرف سے صدر الدین لاہوری اور مسعود بیگ پیش ہوئے پانچ اگست 1974سوموار کے دن دس بجے اسٹیٹ بینک کی بلڈنگ میں خصوصی کمیٹی کا اجلاس ہوا گیارہ روز تک مرزا ناصر احمد اور دو روز تک لاہوری گروپ سے مختلف سوالات اور ان پر جرح ہوتی رہی سارے سوالات اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار صاحب نے کیے اگر کسی بھی رکن کو اعتراض ہوتا وہ سوال پوچھنا چاہتا تو تحریری طور پراٹارنی جنرل کو دیتا اور وہ اس رکن کی طرف سے سوال پوچھتے کسی کو ڈائریکٹ سوال کرنے کی اجازت نہیں تھی کل سترہ دن کی کاروائی کے بعد 7ستمبر1974 کو قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا اس طرح ہمیشہ کے لئے ان کی مکاری کے دروازے کو بند کر دیا گیا۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں