چوہدری محمد اشفاق نمائندہ پنڈی پوسٹ
پی پی 5 سے مختلف سیاسی جماعتوں کے متوقع امیدواروں نے غیر محسوس انداز میں 2018کے انتخابات کے لیے اپنے حق میں رائے عام ہموار کرنے کی کوشش شروع کر دی ہیں اگر چہ تاحال کسی بھی جماعت نے اپنے امیدوار کا نام فا ئنل نہیں کیا ہے یہاں کی سیاست پارٹی اور شخصی بنیاد پر لڑی جاتی ہے اگر پارٹی کے حوالے سے دیکھا جائے تو ن لیگ یہاں کی بڑی اور فاتح پارٹی ہے اور اگر شخصیت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو موجودہ ایم پی اے قمر السلام راجہ 2008میں ن لیگ کے ٹکٹ یا فتہ امیدوار کو شکست دے کر کامیاب ہوئے تھے ااور 2013میں ن لیگ کا حصہ بن کر پنجاب بھر سے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کر کے کامیاب ہوئے تھے 2008والا الیکشن وہ صرف اور صرف اپنی شخصیت کی نبیاد پر جیتے تھے اور وہ اس حلقہ سے یکے بعد دیگرے دو دفعہ الیکشن جیت چکے ہیں جس سے واضع ہوتا ہے کہ اس حلقہ میں شخصیتی سیاست بھی چلتی ہے البتہ 2018کے الیکشن کے لیے ان کو کچھ مشکلات کا سامنا ضرور کرنا پڑے گا کیونکہ اسی حلقہ کی ایک اور اہم سیاسی شخصیت چئیرمین یوسی بشندوٹ محمد زبیر کیانی نے بھی پارٹی ٹکٹ کے لیے درخواست دینے کا اعلان کر رکھا ہے ان کا کہنا ہے کہ وہ ٹکٹ کے لیے اپلائی کریں گے اگر پارٹی نے ان پر اعتماد کیا تو وہ ن لیگ کے پلیٹ فارم سے ایم پی اے کا الیکشن لڑیں گے اور ان حالات کے پیش نظر انہوں نے اس سلسلہ میں باقاعدہ مہم کا آغاز بھی کر دیا ہے اور عوام علاقہ کی طرف سے ان کو حلقہ میں منعقد ہونے والی مختلف تقریبات میں مہما ن خصوصی کے طور پر مدعو کرنا شروع کر دیا ہے اور زبیر کیانی ایسے معاملات میں گہری دلچسپی بھی لے رہے ہیں لیکن اگر دوسری طرف دیکھا جائے تو قمر السلام راجہ کا سیاسی حالات پر مکمل کنٹرول ہے اور وہ وزیر اعلی پنجاب کے قریبی ساتھیوں کی فہرست میں شامل ہیں اس حلقہ سے جماعت اسلامی کے متوقع امیدوار خالد محمود مرزا ہی ہیں اور حالا ت بتارہے ہیں کہ وہ ایم این اور ایم پی اے دونوں نشستوں سے انتخابات میں حصہ لیں گے جماعت اسلامی کا پی پی 5ووٹ بینک موجود ضرور ہے لیکن یہ بات کھلے طور پر کہی جا سکتی ہے کہ جماعت اس پو زیشن میں نہیں ہے کہ وہ کسی بھی جماعت کے امیدوار کے لیے خطرہ بن سکے خالد محمود مرزا اس حلقہ میں کافی اثر و رسوخ رکھتے ہیں اور عوام حلقہ ان کو پسند بھی کرتے ہیں پیپلز پارٹی جو اس حلقہ میں بلکل نام کی رہ چکی ہے نے بھی فی الحال کسی امیدوار کو اشارہ نہیں دیا ہے کہ وہ الیکشن کی تیاری کرے اور نہ ہی اس کی طرف سے کوئی عوامی رابطہ مہم چلائی گئی ہے اور اس وجہ سے اس حلقہ میں پیپلز پارٹی کا گراف دن بدن گرتا جارہا ہے جبکہ کچھ عرصہ قبل پیپلز پارٹی اس حلقہ کی ان سیاسی جماعتوں میں شامل تھی جو کسی بھی وقت مخالف سیاسی جماعتوں کے امیدوار کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا سکتی تھی ہاں اتنا ضرور ہے کہ اس حلقہ میں موجود پیپلز پارٹی کے ورکرز پر عزم نظر آرئے ہیں اور ان میں اگلے الیکشن کے لیے کافی جوش و خروش پایا جا ریا ہے ادھر پاکستان سنی تحریک نے بھی اس حلقہ سے اپنے امیدوار لانے کا اعلان کر رکھا ہے لیکن فی الحال اس کی طرف سے کوئی نام سامنے نہ آیا ہے اس حلقہ کی دوسری بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف ہے جو اس وقت اس حلقہ میں اپنا ایک خاص مقام حاصل کر چکی ہے اور ہر طرف اس کی بنیادیں اور جڑیں نظر آرہی ہیں پی ٹی آئی کی طرف حلقہ میں اس وقت تین نام گردش کر رہے ہیں جن میں سر فہرست ملک سہیل اشرف عبدالوحید قاسم اور چوہدری امیر افضل شامل ہیں ان میں سے چوہدری امیر افضل نئے ہیں جبکہ ملک سہیل اشرف اور عبدالوحید قاسم کا فی عرصہ سے میدان میں موجود ہیں ملک سہیل اشرف کا تعلق تحصیل کلرسیداں جبکہ باقی دونوں امیدواروں کا تعلق تحصیل راولپنڈی سے ہے ملک سہیل اشرف نے اس وقت نو جوانوں کو خاصا متحرک کر رکھا ہے اور نوجوان کا م کرتے نظر آرہے ہیں پاکستان تحریک انصاف کے لیے بہتر یہی ہو گا کہ وہ اپنا ایم این اے روات سے پیچھے اور ایم پی اے روات سے آگے یعنی کلر سیداں کے علاقہ سے نامزد کر ے تو پارٹی کی پو زیشن قدر ے بہتر ہو جائے گی ملک سہیل اشرف علاقہ میں کافی اثرو رسوخ رکھتے ہیں اور وہ پارٹی کے لیے نہایت ہی مفید ثابت ہو سکتے ہیں اس حلقہ میں اصل مقابلہ ن لیگ ااور پی ٹی آئی کے امیدوار کے درمیان ہی ہو گا اس حلقہ میں سیاسی سرگرمیاں کافی زور پکڑ چکی ہیں اس وقت تمام امیدوار ٹکٹ کے حصول کے لیے اپنی راہیں ہموار کر رہے ہیں اس کے بعد سیاسی مخالفین سے جوڑ توڑ کریں گے لیکن یہ بات برملا کہی جا سکتی ہے کہ عوام علاقہ کے دکھ سکھ میں شرکت کے لحاظ سے پاکستان تحریک انصاف او ل نمبر پر ہے جبکہ ن لیگ کا نمبر اس حوالے سے دوسرا ہے اس وقت اس حلقہ کے لیے سب سے بڑا مسئلہ گیس فراہمی کا ہے کلر سیداں کے چاروں طرف گیس کا کام بہت تیزی سے جاری ہے لیکن اس علاقہ میں ابھی تک گیس کی سپلائی کا کہیں نام بھی نہیں لیا جا رہا ہے جس سے عوام علاقہ میں سخت مایوسی پائی جا رئی ہے ن لیگ کو 2013جیسے نتائج حاصل کرنے کے لیے ا س متعلق غور و فکر ضرور کرنا ہو گی بصورت دیگر نتائج بر عکس آسکتے ہیں ا
143