ثاقب شانی‘ نمائندہ پنڈی پوسٹ
کلر سیداں کے ایک شادی ہال میں منعقدہ پی ٹی آئی کے سر گرم کارکنان کی مینٹنگ اور ورکرز اتحاد نے مقامی و ضلعی قائدین کے تنظیمی اتحاد کے دعووں کی قلعی کھول دی ہے، گو کے تنظیمی معمالات پر اختلافات کے سبب جنم لینے والی اندرونی دھڑے بندی کوئی راز پوشدہ تو نہیں لیکن قائدین اور دھڑے، دھڑے بندیوں کی نفی کرتے رہے ہیں حالیہ تنظیمی فیصلوں پر تحفظات رکھنے والے کارکنان کے ورکرز اتحاد نے اس دھڑے بندی کو طشت از بام کر دیا ہے، ورکرز اتحاد کا گلہ ہے کہ ضلعی سطح پر ہونے والے فیصلے تحصیل پر مسلط کئے جارہے ہیں جن میں مقامی کارکنان کی رائے اور زمینی حقائق کو نظر انداز کیا جا رہا ہے فیصلہ سازی میں مقامی ورکرز کی رائے کا نظر انداز ہونا جماعتی منشور کے خلاف ہے صاحب اختیار قائدین کے پسند و ناپسند پر مبنی فیصلوں سے کارکنان کا شاکی ہونا فطری ہے اس کی دلیل یوں دیتے ہیں کہ چند ماہ میں کلر سیداں میں ورکرز کے حمایت یافتہ دو تحصیل صدر و امیدوار برائے صدر مسترد جبکہ صدارت کی دوڑ میں نظر نہ آنے والے مگر قائدین کے حمایت یافتہ صدور منتحب ہوئے ورکرز گروپ کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہیں کسی بھی شخصیت سے ذاتی اختلاف ہے نہ ہی وہ اپنی من پسند شخصیت کو عہدہ نہ ملنے پر طبلِ جنگ بجانے والے ہیں وہ عمران خان کی سپاہ ہیں اور بوسیدہ نظام کی درستگی کے لئے علم بغاوت بلند کئے ہوئے ہیں بشرطیکہ جماعت کے اندر موروثی سیاست اور اقرباء پروری کی وہ روش نہ اپنائی جائے جس کے خلاف ان کا قائد ملک گیر تحریکیں چلا رہا ہے۔انہی دنوں میں نو منتخب تحصیل صدرنے بھی ایک میٹنگ کا انعقاد پی ٹی آئی کے مرکزی دفتر میں کیا جس میں مقامی و ضلعی قیادت اور کارکنان نے شرکت کی، دو ہزار تیرہ کے الیکشن سے قبل پی ٹی آئی کی میٹنگز بلکہ جلسوں میں بھی اس قسم کے اکٹھ کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی جس تعداد میں تحصیل بھر میں ہر کہیں منعقدہ میٹنگز اور تقریبات میں کارکنان اور سپورٹرز شریک ہو رہے ہیں دو مختلف مقامات پر ہو نے والی میٹینگز اور ان میں شریک معروف شخصیات اور ورکرز کی کثیر تعداد جہاں تنظیمی اختلافات کی دلیل ہے تو تحصیل میں جماعت کی مقبولیت کا عندیہ بھی دیتی ہے بجائے اس کے اندرونی اختلافات پر پنجہ آزمائی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حلقوں کی ڈرامائی تبدیلی اور آمدہ الیکشن میں درپیش چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کی تیاری کی جاتی یہاں خانہ جنگی جاری ہے
ایک اور دریا کا سامنا تھامنیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
کے مصداق پی ٹی آئی کو اپنی توجہ اس جانب مرکوز کرنی چاہیے کہ وہ سابق وفاقی وزیر داخلہ کے جھپے‘ سے نکل کر آمدہ الیکشن میں موجود وزیر اعظم کے مد مقابل ہوں گے کیا واقعی یہ اس ’وارے‘ کی سنجیدگی سے تیاری کر رہے ہیں؟صوبائی نشست پر بھی ان کا سامنا منجھے ہوئے سیاست دان سے ہو گا اس بابت ان کی کیا حکمت عملی ہو گی؟ بحرحال یہاں ابھی صدارتی بحث گرم ہے
156