265

تجھے کیا ملے گا نماز میں

پروفیسر محمد حسین/موجودہ دور میں ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ لوگوں کا رحجان مذہب کی طرف بہت زیادہ ہو گیا ہے رائے ونڈ کے سالانہ تبلیغی اجتماع میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے اب یہ تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی ہے اور کہا جاتا ہے کہ حج کے بعد شرکاء کی تعداد کے لحاظ سے مسلمانوں کا دوسرا بڑا اجتماع قرار دیا جا سکتا ہے۔اسی طرح دوسری دینی جماعتوں کے لاکھوں کے اجتماع اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستانیوں کا رجحان مذہب کی طرف روز بروز بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ہر سال عمرے پر جانے والوں کی تعداد میں بھی نمایاں اضافہ ہو رہا ہے رمضان المبارک میں مسجدیں لبالب بھری ہوتی ہیں تراویخ او ر شبینہ میں لوگ ساری ساری رات اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور گڑگڑا کر دعائیں مانگتے ہیں ان کے علاوہ پاکستان کی ماڈرن کلاس بھی انگریزی اصطلاحات کا لبادہ اوڑھ کر ہی سہی تصوف اور مراقبوں وغیرہ کی طرف مائل ہو رہی ہے پیری مریدی اور تعویذ گنڈوں کا سلسلہ بھی پہلے سے زیادہ نظر آتا ہے۔ان امورکے علاوہ آجکل بعض لوگوں کے چہرے پر لمبی داڑھی ہوتی ہے مونچھیں مونڈی ہوتی ہیں شلوار ٹخنوں سے اونچی ہوتی ہے اور جیب میں مسواک جھانک رہی ہوتی ہے جو لوگ اس حلیے میں نظر نہیں آتے ان میں سے بھی بیشتر اندر سے بدل چکے ہوتے ہیں اور ان کی زندگیوں میں نماز روزے کی پابندی ہو چکی ہوتی ہے ان کا تعلق کسی ایک طبقے سے نہیں بلکہ تمام طبقوں سے ہے چنانچہ ان میں تاجر‘ سیاستدان‘ جرنیل‘صاحبان اقتدار‘پروفیسر‘وکیل‘جج‘افسر‘کلرک‘چپڑاسی‘دوکاندارسبھی لوگ شامل ہیں۔مذہب کی طرف یہ رحجان کا عمل آج پورے عروج پر پہنچا ہوا نظر آتا ہے جو لوگ مذہب کی طرف راغب ہو رہے ہیں ان کی بڑی تعداد کی زندگیوں میں سوائے عبادت اور حلیے کے کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی جو ظالم صنعتکار ہے اس کا مزدوروں کے ساتھ رویہ ظالمانہ ہی رہتا ہے۔راشی افسر رشوت لینا بند نہیں کرتا مزدور اپنا فرض دیانتداری سے ادا نہیں کرتا سیاستدان جن میں مذہبی اور غیر مذہبی ہر طرح کے سیاستدان شامل ہیں اپنی سیاست جاری رکھتے ہیں وکیل‘جج‘پروفیسر اپنی اپنی ڈگر پر چلتے ہیں آخر مذہب کی یہ کون سی شکل ہے جو ہمارے ہاں پروان چڑھ رہی ہے جس میں عبادت مسجد تک محدود ہو کر رہ گئی ہے جبکہ مسجد صرف سجدہ گاہ ہے اس کے باہر ساری دنیا عبادت گاہ کا درجہ رکھتی ہے۔کیا ہم نے کہیں یہ تو نہیں سمجھ لیا کہ اللہ ہماری نماز دعا اور روزہ کا محتاج ہے اور اللہ کو ہمارے باقی اعمال سے کوئی سروکار نہیں یا کہیں ہمارا مجرم ضمیر اپنے بچاؤ کی لیے مذہب کے بجائے مذہب کی شارٹ کٹ کی طرف تو نہیں لے جارہا؟ دین اسلام تو نفس کی قربانی مانگتا ہے جو شاید سب سے مشکل کام ہے نمازصرف پڑھنے کی چیز نہیں نماز تو قائم کرنے کے لیے ہے پوچھنے کی بات یہ ہے کہ کیا امت مسلمہ نمازوں کی طرف جا رہی ہے اس کی سمت کوئی اور ہے؟اور اگر ہمارا معاشرہ واقعی اتنا مذہبی ہو گیا ہے تو پھر جو کچھ ہماری آنکھیں دیکھ رہی ہیں وہ سب کیا ہے؟دانشور کی بات گویا کڑوی ہے لیکن ہے سچ‘امانت‘دیانت‘نفرت‘حسد‘اخلاقی بے راہ روی‘ظلم وتشدد،کرپشن کا شکار ہجوم میں بے شمار نماز پڑھنے والے بھی مل جاتے ہیں فرقہ پرستی جیسی مذموم ذہنیت رکھنے والوں کی تعداد تو اکثریت نمازی ہی ہے اس کی ایک بڑی وجہ نماز میں پڑھی جانے والی دعاؤں کے معنی سے نا آشنا ئی ہے مسلمان کی شناخت مومن کی معراج،آنکھوں کی ٹھنڈک‘دلوں کا سرور نماز کی اہمیت اور قدر منزلت سے غفلت کا ہی نتیجہ ہے کہ نماز یوں کی کثرت کے باوجود سچے نمازی نایاب ہیں جب ہم مفہوم سمجھ کر بارگاہ الہی میں حاضری دیں گے تو جو زبان سے ادا کریں گے دل کا دھیان بھی ادھر ہی ہو گا تو نماز یقینا دل کا سرور ہو گی ورنہ جسمانی مشق یا مشقت سے ز یادہ کچھ نہیں اللہ سے تعلق کو مضبوظ بنانے کا بہترین ذریعہ اس کا ذکر ہے اور ذکر کا سب سے اچھا طریقہ نماز ہے توجہ اور دھیان سے نماز پڑھیں تو نماز آنکھوں کی ٹھنڈک ہو گی دراصل ہم نے انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنے اور اپنے رب کے رشتہ کو پچانا ہی نہیں ہے۔نمازوں کے متعلق اللہ ارشاد فرماتے ہیں کہ (پس ہلاکت ہے ان نمازیوں کے لیے جو اپنی نمازوں سے غافل رہتے ہیں)اس میں ہلاکت کی وجہ یہی ہے کہ ہم جسم کے ساتھ تو ورزش کر رہے ہوتے ہیں لیکن ہماری روح جو اصل اور قیمتی متاع ہے وہ نماز میں ہمارے ساتھ نہیں ہوتی ہمیں اپنی روح کو اپنی نماز میں شامل کرنے کے لیے پھر اس رشتہ کا جائزہ لینا پڑے گا جو ہمارے رب کے ساتھ ہے اور اس رشتہ کو عبد اور معبود‘محکوم اورحاکم کے رشتہ سے بڑھا کر محب اور محبوب والے رشتہ میں بدلنا ہو گا پھر ہمیں محبوب کا حکم صرف مانا تو ایک طرف حکم مانے میں لذت وسر فروشی‘خوشی ومسرت کی دولت بھی حاصل ہو گی ہمارا دل ہر وقت محبوب سے ملاقات کرنے،باتیں کرنے‘مانگنے مانے اور منوانے کے لیے بے تاب رہے گا پھر عام فرض نمازیں تو ایک طرف سارے عالم کو سوتے چھوڑ کر رات کی تاریکی میں محبوب سے ملنے کا شوق‘ناراض محبوب کو راضی کرنے کی تمنا‘ محبوب سے بچوں کی طرح ضد کرکے اپنی حاجات‘ضرورتیں اور مسائل و مشکلات اور تمام اغراض پوری کرانا پسندیدہ مشغلہ بن جائے گا اور ہمارا دل نماز کے انتظار میں مسجد میں اٹکا ہوا ہو گا کہ محبوب کے گھر جا کر اس سے باتیں کرنا اور ملاقات کرنی ہے حدیث مبارکہ میں رسول اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ(نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے)یہ وہ فائدہ ہے جو تمام روحانی اور جسمانی بیماریوں کا علاج ہے ساری دنیا میں برپا فساد غربت‘مہنگائی‘بے حیائی‘حق تلفی‘ظلم و تشدد‘چوری‘ڈاکا زنی‘اغواء وغیرہ کا ایسا بے مثل علاج ہے کہ دنیا کا کوئی مذہب اس کی نظیر پیش ہی نہیں کر سکتا۔بشرطیکہ ہم وہ نماز پڑھیں جس میں ہمارے جسم کے ساتھ ہماری روح بھی شامل نماز ہو اللہ اپنے محبوب رب سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اپنے محبوب بندوں میں شامل فرمائے۔آمین ثم آمین

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں