111

تجھے بھول نہ پائیں گے

فیصل صغیر راجہ
آہ! 27 دسمبر کیا پہلے دکھ ،غم مصیبتیں اور رونا کم تھا؟ جو تو اور تڑپانے رولانے اور سسکانے کیلیے آ پہنچا۔ یہ جو دسمبر ہے ناں یہ بڑا ظالم ہے۔ یہ کسی پل چین نہیں لینے دیتا۔ دسمبر تو نے مجھ سے میری ماں جیسی عظیم ہستی چھینی آج میں جو کچھ بھی ہوں اس کی دعاؤں کے صدقے میں ہوں۔ اور اب ماں کے بغیر اور اس کے دعاؤں کے بغیر بہت ادھورا محسوس کر رہا ہوں۔ دسمبر وہ تو ہی تھا جس نے سانحہ پشاور میں ہم سے ہمارے مستقبل کو چھینا بلکہ یہ بھی تو ہی تھا جب سانحہ مشرقی پاکستان پیش آیا اور ہمارا ایک بازو کٹ کے بنگلہ دیش کی صورت میں دنیا کے نقشے پر ظاہر ہوا۔ اس سب کے باوجود تیرا جی نہ بھرا اور تو نے ہم پاکستانیوں سے ایک عظیم لیڈر جو ہر پلیٹ فارم پر عوام اور پاکستان کی بات کرتی تھی اگر یہ کہوں کہ پاکستان کے عوام کی آخری امید محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو ہم سے چھینا تو بڑا بیدرد ہے۔
27 دسمبر 2007 کی شام لیاقت باغ راولپنڈی کا جلسہ گاہ عوام سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ عوام کا ولولہ اور جوش و خروش دیکھنے کے لائق تھا۔ جیالے پوری طرح چارج تھے اور وہ آمریت کے خلاف فائنل راونڈ محترمہ بینظیر بھٹو کی قیادت میں کھیلنے کو بالکل تیار تھے۔ مگر دشمنان جمہوریت اور پاکستان کچھ اور ہی سوچے ہوئے تھے۔ کس کو معلوم تھا کہ لیاقت کا یہ باغ آج ایک اور عوامی لیڈر کو نگلنے کیلیے تیار بیٹھا ہے۔ آمر وقت پرویز مشرف اور اس کا ٹولہ یہ کب چاہتا تھا کہ عوام کو ان کا حق حکمرانی دیا جائے۔ ہوس اقتدار اور طاقت کے خواہش مند کب عوام کو ان کا حق دینا چاہتے تھے اسی لیے انہوں نے اپنے پالے ہوئے دہشت گردوں کا سہارا لیا اور اس ملک میں جمہوریت کی سب سے بڑی اور مضبوط آواز کو ختم کرنے کا پلان ترتیب دیا اور اس کیلیے چنا 27 دسمبر کی شام کو۔
جب جلسہ اپنے اختام کو پہنچا تو واپسی پر محترمہ بینظیر بھٹو کے قافلے کو نشانہ بنایا گیا پہلے پسٹل سے دو تین فائر کیے گے اور پھر بلاسٹ کیا گیا جس سے محترمہ شہید ہوئیں۔ محترمہ کی شہادت تیسری دنیا کے لوگوں کیلیے بہت بڑا صدمہ تھی۔ محترمہ کی شہادت کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیلی اور پورے ملک کے نظام کو مفلوج کر کے رکھ دیا۔ نہ صرف پی پی پی بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کے جمہوریت پسند کارکنان احتجاجاََ باہر نکل آئے اور پورے ملک بلکہ پوری دنیا میں سوگ منایا گیا اور ہر جمہوری کارکن چاہے وہ کسی بھی ملک سے تھا اس نے محترمہ کی شہادت پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔محترمہ شہید آمریت کے خلاف جدوجہد کا استعارہ تھیں انہوں نے دو طویل مارشل لاؤں کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ ضیاالحق نے ہر طرح سے محترمہ کو ہراساں کرنے کی کوشش کی کبھی قید وبند کی صعوبتیں پہنچائیں اور کبھی پارٹی ورکروں کو بیگناہ سزائیں دے کر محترمہ اور ان کے ساتھیوں کو جھکانے کی کوشش کی مگر آفرین ہے بھٹو شہید کی لاڈلی اور چہیتی بیٹی پر نہ وہ جھکی اور نہ ڈری بلکہ جیالوں اور عوام کے ساتھ مل کر آمریت کو للکارتی رہی۔ اسی جدوجہد او عوامی محبت کا اثر تھا محترمہ بینظیر بھٹو شعید دو بار وزارت اعظمی کی مسند پر مسندنشین ہوئیں اور اس ملک کے غریب عوام کی تقدیر بدلنے کیلیے شب و روز کام کیا۔ پرویز مشرف کی آمریت کے خلاف بھی جدوجہد جاری رکھی اور بدترین حالات میں بھی اور جلاوطنی کے باوجود اس ملک اور اس میں بسنے والوں سے ناطہ نہ توڑا اور اپنے بدترین سیاسی مخالفین کو بھی ساتھ ملا کر آمریت کے خلاف تحریک چلائی اور چارٹر آف ڈیموکریسی جیسی دستاویزات پر دستہط کیے اور جمہوری قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کیا۔ پرویز مشرف کو مجبور کیا کہ وہ وردی کی آڑ سے باہر نکلے اور ملک میں صاف شفاف الیکشن کرائے الیکشن مہم کے دوران راولپنڈی کے لیاقت باغ ایک عظیم الشان جلسہ سے خطاب کے بعد دہشتگردوں کے ہاتھوں شہادت کا جام نوش کیا۔ اور رہتی دنیا تک آمر ہو گئیں۔

میں شہزادی عقل دے قاتلاں نوں
بس تاریخ دے متھے دا داغ لکھاں

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں