چوھدری محمد اشفاق‘ نمائندہ پنڈی پوسٹ
یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ صرف جیت کر حکومت بنانے سے یا حکومتی پارٹی سے تعلق ہونے کی وجہ سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکتے ہیں ن لیگ کے دور میں بڑے بڑے بیورکریٹس کو ادھر ادھر کیا جاتا رہا ہے کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی تھی پی ٹی آئی کی حکومت نے صرف چند آفیسرز کو ہی چھیڑا جو ان کیلیئے تذلیل کا باعث بنا جس سے واضح ہوگیا کہ اختیارات کے ساتھ ساتھ بااثر ہونا بھی بہت ضروری ہے تحصیل کلرسیداں میں ن لیگ کے دور میں لیگی عہدیداروں نے تو اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا ہی ہے بلکہ ان کے ساتھ ایسے افراد بھی اپنا بہت زیادہ اثر و رسوخ استعمال کرتے رہے ہیں جو صرف ایک بار چوھدری نثار علی خان کے آگے سے بھی گزر جاتے رہے ہیں خاص طور پر ن لیگی رہنماوں ،کارکنوں،اور ورکرز نے تحصیل میں موجود تمام سرکاری اداروں کو بلکل یرغمال بنائے رکھا تھا تھانے کچہری کی بات ہو محکمہ مال ٹی ایم اے یا اے سی آفس ہر طرف ن لیگ کا سکہ چلتا تھا ترقیاتی گرانٹس چوکپنڈوڑی کیلیئے میلیں خرچ شاہ باغ میں ہو گئیں گرانتس کسی اور یو سی کو ملیں لیکن خرچ کسی اور یو سی میں ہو گئیں کوئی کسی کی جرآت نہ تھی کہ کہیں سے اس بارے میں کوئی تحقیقات کروا سکے اور اگر کسی نے ہمت کر کے کوئی تھوڑی بہت پوچھ گچھ کروائی بھی تو وہ محض روٹین کی کاروائی تک ہی محدود رہی ہے الغرض اس وقت کے سیاہ سفید کے مالک چوھدری نثار علی خان چمچوں کڑچھوں نے خوب موجیں اڑائی ہیں سرکاری اداروں سے جائز ناجائز ہر طرح کے کام لیئے ہیں اور اپنا اثر و رسوخ خوب استعمال کیے رکھا کسی بھی سرکاری ادارے میں کسی بھی دوسری سیاسی جماعت کے لوگوں کیلیئے کسی قسم کے بھی کام کیلیئے کوئی گنجائش ہی موجود نہ تھی سرکاری ادارے میں کوئی بھی تقریب ہوتی تھی تو سوائے ن لیگ کے ورکرز کے کسی کو مدعو نہیں کیا جاتا تھا میں نے اکثر لوگوں کو یہ دعائیں کرتے ہوئے سنا تھا کہ یا اللہ پی ٹی آئی کی حکومت آئے کم از کم ن لیگ کے ٹاوٹوں سے سے تونجات ھاصل ہو گی اب ن لیگ کی حکومت ختم ہو گئی ہے اور ساتھ ہی چوریاں کھانے والے مجنوں بھی روپوش ہو چکے ہیں اب ہر طرف پی ٹی آئی کا دور دورہ ہے اس حساب سے تو ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ کلرسیداں کے سرکاری اداروں پر سے ن لیگ کے قبضے کے خاتمے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے مقامی عہدیداروں کو کنٹرول حاصل کرنا چاہیئے تھا لیکن پی ٹی آئی کے مقامی عہدیداران رہنما ورکرز اور کارکن سرکاری اداروں پر زرا سی بھی گرفت حاصل کرنے میں بری طرح ناکام دکھائی دے رہے ہیں کہیں بھی پی ٹی آئی کے عہدیداروں کی کوئی بھی سنی سنائی نہیں ہو رہی ہے ایم این اے پی ٹی آئی کے ایم پی اے پی ٹی آئی کے اور مقامی رہنما بھی موجود ہیں اس کے باوجود سرکاری محکموں کا قبلہ درست نہ ہونا جیت کے باوجود ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے عہدیداروں میں کوئی ایسی بااثر شخصیت ہی موجود نہیں ہے جو اپنا اثر و رسوخ استعمال کر سکے نہ ہی مقامی عہدیداروں نے اس تشویش ناک صورتحال سے نمٹنے کیلیئے ابھی تک اپنا کوئی لائحہ عمل طے کرنے کی کوشش کی ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ صرف الیکشن جیتنے سے کام نہیں چلتے ہیں بلکہ ان تمام معاملات پر قابو پانے کیلیئے با اثر افراد کی پارٹی میں موجودگی بہت ضروری ہے میرے خیال میں بے اثر جیت سے با اثر ہار بہتر ہے الیکشن سے قبل مقامی عہدیدار، کارکن، اور ورکرز خاصے متحرک دکھائی دیتے رہے ہیں لیکن الیکشن کے بعد ان کر سرگرمیاں محدود ہو کر رہ گئی ہیں جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ قومی و صوبائی قیادت اپنی جماعت کے ورکرز کو وہ اہمیت و مقام نہیں دے پا رہے ہیں پی ٹی آئی کی کامیابی کے بعد جب ثمرات کا وقت آیا تو صداقت عباسی بلکل روپوش ہو چکے ہیں عام کارکنوں کے ساتھ تو انہوں نے رابطے منقطع کیئے ہی ہیں اورفون تک سننا گوارہ نہیں کر رہے ہیں جو کہ مخلص کارکنوں کے ساتھ ایک بہت بڑی زیادتی ہے دوسری طرف حلقہ پی پی سات کے ایم پی اے راجہ صغیر احمد بھی پی ٹی آئی کے حقیقی ورکرز کو ساتھ لے کر چلنے سے گریزاں ہیں ان کی طرف سے بھی درینہ کارکنوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے وہ اپنی ٹیم پاکستان تحریک انصاف نہیں بلکہ ایسے افراد کو سمجھ رہے ہیں جو آزاد حثیت کے وقت ان کے دست و بازو تھے وہ اپنی ٹیم کو اول اور پی ٹی آئی کے حقیقی ورکرز کو دوسرے نمبر پر پرکھ رہے ہیں ایسی صورتحال سے درینہ کارکنان سخت پریشان دکھائی دے رہے ہیں ان کو سمجھ ہی نہیں آرہی ہے کہ وہ کس کو اپنا سربراہ گردانیں اب وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو چکے ہیں کیا انہوں نے پی ٹی آئی کو کامیاب کروا کر کوئی بڑی غلطی تو سرزد نہیں کر ڈالی ہے دوسری جماعتوں کے ورکرز تو ہار کی وجہ سے پریشان ہیں لیکن پی ٹی آئی کے ورکرز جیت کر بھی مایوس ہو چکے ہیں جو کے صداقت عباسی اور راجہ صغیر کیلیئے ایک لمحہ فکریہ ہے
114