پروفیسرمحمد حسین/ہماری موجودہ حکومت گزشتہ اڑھائی برس سے برسراقتدار ہے۔اس عر صے میں حکومت نے ایک بہت بڑا قابل تحسین کارنامہ سر انجام دیا ہے وہ یہ کہ برآمدات میں اضافہ کر کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو سر پلس میں تبدیل کر دیا ہے۔پاکستان کی تہترسالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ ہمارا کرنٹ اکاؤنٹ پلس میں ظاہر ہوا ہے اور یہ حکومت کی شب و روز محنت و کاوش کا نتیجہ میں ہی ایسا ہو سکا ہے۔لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ برآمدات میں اتنا اضافہ کیسے ہوا ہے؟وہ یوں کہ عوام کی بنیادی ضروریات کی اشیاء کو برآمد کر کے زرمبادلہ حاصل کیا گیا اور اس طرح ہمارا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ سے سرپلس میں تبدیل ہوا۔عوام کی بنیادی ضروریات کی اشیاء کی برآمدات کی وجہ سے اندرون ملک ان اشیاء کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کر رہی ہیں اور اس کے ساتھ ہی دیگر ضروریات کی اشیاء کی قیمتیں بھی بڑھ گئی ہیں اور متواتر بڑھ رہی ہیں۔ایک شے کی قیمت صبح کچھ اور ہوتی ہے اور دوپہر کے وقت اسی شے کی قیمت بڑھی ہوتی ہے اور شام کے وقت مزید بڑھی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔اس طوفانی ریکارڈ مہنگائی کی وجہ سے غریب عوام کی چیخیں نکلتی سنائی دے رہی ہیں اور غریب عوام کو دو وقت کی روٹی ملنا محال ہو گیا ہے اور حکمران ہیں کہ کرنٹ اکاؤنٹ کے پلس ہونے کی خوشی میں جشن منا رہے ہیں۔قابل غور بات یہ ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ کے پلس ہونے سے غریب عوام کو کیا ریلیف ملا؟عوام کو تو صرف ہو شربا مہنگائی کا تاریخی طوفان ملا۔موجودہ تاریخی ریکارڈمہنگائی کے لئے ایک مثال ہی کافی ہے کہ مرغی کا ایک انڈا اس وقت جس قیمت پرمل رہا ہے 2018میں اس قیمت پر ایک مرغی مل جایا کرتی تھی۔حکمران طبقہ کے لئے یہ ایک نہایت ہی شرمناک بات ہے۔ہمارے پڑوسی ممالک میں مہنگائی ہماری نسبت بہت کم ہے اس سلسلے میں افعانستان اور بنگلہ دیش ہم سے آگے ہیں اور ہماری نسبت زیادہ ترقی کر رہے ہیں اور ہماری کرنسی کے مقابلے میں ان کی کرنسی زیادہ مستحکم اور مضبوط ہے اور ہمارے موجودہ برسراقتدار طبقہ کو مہنگائی ختم یا کم کرنے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں۔ایسا پتا چلتا ہے کہ تاجر وں‘ سرمایہ داروں‘ناجائز منافع خوروں اور ذخیرہ خوروں کو اپنی من مانی قیمت پر اشیاء فروخت کرنے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے اور ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔حکومت مہنگائی پرقابوپانے اور عوامی مسائل حل کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان میں حکومت نام کی کوئی چیز موجود بھی ہے کہ نہیں؟برسراقتدار طبقہ کے وزرائے کرام‘مشیران‘معاونین خصوصی‘معاشی ٹیم‘وفاقی اور صوبہ پنجاب کے ترجمانوں کی فوج ظفر موج روزانہ تمام ٹی وی چینلزپر براجمان ہوتے ہیں اور اپوزیشن پر دشنام طرازیاں اور تنقید کرتے ہوتے نظر آتے ہیں لیکن کبھی کسی ایک نے بھی ملک اور عوام کی بہتری‘خوشخالی اور ترقی فلاح وبہبود کہ بارے میں اپنے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکالا اور نہ ہی ان حضرات نے عوام کے بنیادی مسائل مہنگائی‘بے روزگاری‘غربت وافلاس کو حل کرنے کے متعلق اپنا کوئی لائحہ عمل پیش کرنے کی کوشش کی بلکہ ان کا کام صرف اپوزیشن کو رگیدنالتاڑنا اور ان کے ہر کام میں آڑے آنا اور ان کو ذلیل اور رسوا کرنا ہی رہ گیا ہے حالانکہ اپوزیشن برائے نام ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر وزیر صاحبان‘مشیران‘معاونین خصوصی‘ ترجمان وغیرہ اپنے اپنے فرائض منصبی کو کماحقہ ادا کرنے کی کوشش کریں اور ملک وقوم کی ترقی خوشحالی اور فلاح و بہبودکے لئے دن رات ایک کر کے ملک وقوم کو اعلیٰ منازل پر پہنچائیں اور اپنے ملک کا نام روشن کریں۔ہمارے ملک میں جمہوریت کے نام پر حکومت چلا ئی جا رہی ہے دیکھنا یہ ہے کہ جمہوریت کسے کہتے ہیں؟جمہوریت دراصل عوام کی حکومت کا نام ہے جس میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں باہمی مشاورت اور افہام و تفہیم کے ذریعے حکومت کو چلاتے ہیں بعض امور میں حزب اقتدار کو کسی مسلئے کے حل کے لئے حزب اختلاف سے باہمی مشاورت کی ضرورت پڑجاتی ہے تب ہی تو حکومت کی گاڑی چل سکتی ہے۔لیکن پاکستان میں موجودہ جمہوریت چل رہی ہے یہ تو آمریت سے بھی بدتر دکھائی دے رہی ہے۔کورونا کی وجہ سے لوگوں کے روزگار ٹھپ ہو کر رہ گئے ہیں سکول‘کالج اور یونیورسٹیاں بند کر دی گیئں ہیں۔تبدیلی کے سلسلہ میں عوام سے جو وعدے کئے گئے تھے وہ پورے نہیں کئے گئے۔نام نہاد تبدیلی کے نام پر عوام کو سبز باغ دکھائے ہیں لوگوں کو ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ مکانات دینے کا وعدہ کیا گیا جو ابھی تک ایفاء نہ ہو سکا بلکہ اس کے برعکس لاکھوں لوگوں سے نوکریاں چھین کران کو بے روزگار کر دیا گیا اور ہزاروں لوگوں سے مکانات چھین کر ان کو بے گھر کر دیا گیا۔ملک میں رشوت‘کرپشن‘دہشت گردی‘قتل و غارت‘ڈاکہ زنی‘اغوا‘ لوٹ مار‘بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے ریپ اور پھر قتل اللہ کی پناہ۔قائداعظم محمد علی جناح ؒکے اس پاک وطن میں ہو کیا رہا ہے؟ملک کے حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ملکی معیشت کا بیڑہ غرق کر دیا گیا ہے اور ملک پر تاریخی ریکارڈ قرضہ کا بوجھ لاددیا گیا ہے اور ملک کو آئی ایم ایف کے رحم وکرم پر چھوڑدیا گیا ہے۔پٹرول‘گیس‘بجلی‘ادویات‘گندم‘چینی‘گھی کی بھی قیمتیں دن بدن بڑھائی جا رہی ہیں اور عوام کو مہنگائی‘غربت اور بے روزگاری کے دلدل میں پھینک دیا جا رہا ہے۔ریاست مدینہ کے سلسلہ میں موجودہ حکمرانوں سے التماس ہے کہ اگر واقعی پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر فلاحی اور ترقی یافتہ اسلامی ریاست بنانا چاہتے ہیں تو کلمہ طیبہ کے نام پرآزاد ہونے والے ملک پاکستان میں قرآن وسنت کا نظام نافذکرنے کا اعلان کریں۔اس لئے کہ یہی وہ مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں انسانی معاشرت کے تمام پہلو ؤں کا احاطہ بدرجہ کمال ہے۔ملک میں تبدیلی لانے‘دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کا مثردہ سنایا گیا تھا وہ تبدیلی کہاں ہے؟تبدیلی کب آئے گی‘کب تک انتظار کرنا پڑئے گا؟
269