
ہم محبت سے سانس لیتے ہیں تو فضا میں خوشبو پھیل جاتی ہے‘ ہم محبت سے دیکھتے ہیں تو پیڑوں کے پیلے پتے ہرے ہوجاتے ہیں اور چونچ سے اپنے بال وپر کو کجھاتے ہوئے
پرندے دھوپ جلی منڈیروں سے اڑتے ہیں اور گھنے پیڑوں کی ٹہنیوں پر جھوم کر چہچہاتے ہیں لیکن اب محبت کو یکسر بھلا دیا گیا ہے۔ دلوں میں کھوٹ ہے اور کیسی؟ کینے ہیں اورکتنے؟ اگر ایسا ہی سماج رہا
تو سب راکھ ہو جائیں گے۔ ماضی سے موازنہ کریں تو آج ہماری معاشرتی اقدار بہت بدل چکی ہیں تحمل اور برداشت کا عنصر رفتہ رفتہ دم توڑ رہا ہے
تُو تکار زور آزمائی تشدد اورقتال وجدال معاشرے کے المیے بن چکے۔بے شمار سمجھوتوں میں الجھی یہ قوم ایک خوشگوار اور طاقت ور معاشرے کی پرورش نہیں کرسکی۔ہمارا المیہ ہے
کہ آج سماج میں پیار محبت درگزر جیسے مثبت جذبات کے بجائے منفی رویوں نے جگہ بنا لی ہے۔معاشرے کا ہرفرد صرف اپنے لیے زندہ ہے ہماری حیات کا مقصد صرف ہمارے ہی گرد گھومتا ہے
فائدے اور نقصان کی اس جنگ نے ہمیں غلط راستوں کا مسافر بنا دیا ہے۔ ہمارے لیے انسانی جان کی اب کوئی اہمیت نہیں رہی۔ہمارے سیاسی نظام نے عوام کو ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا ہے۔
سیاسی اختلاف خونی تصادم میں بدل رہا ہے۔ گو جر خا ن کے نواحی علاقے قاضیاں میں سیاسی طور پر جاری ہونے والے فنڈ سے تعمیر ہونے راستے کی تنازعے پر مسلم لیگ اور پی پی کے مقامی رہنماؤں کے درمیان تصادم میں مسلم لیگی رہنماء وسابق ایم این اے جاوید اخلاص کے فوکل پرسن ارشد مبینہ طور پر قتل کردئیے گئے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اس راستے کی تعمیر کے لیے فنڈز مسلم لیگ کے رہنماؤں کی جانب سے جاری کروائے گئے لیکن پیپلز پارٹی کے مقامی رہنماء اپنا حق گردانتے ہوئے جھگڑے پر اتر آئے
جس میں ایک قیمتی انسانی جان ضائع ہوئی میڈیا رپورٹس کے مطابق پی پی رہنماء راجہ پرویز اشرف کو ملنے والے فنڈز انہوں نے پانچ یونین کونسلز کو جاری کیے
جبکہ باقی یونین کونسلز میں پی پی سے تعلق رکھنے والے افراد فنڈز نہ ملنے پر پریشانی اور مایوسی کا شکار تھے جس کا نتیجہ قاضیاں میں مسلم لیگ کے فنڈز پر سیاست کرنے کا نتیجہ ایک قتل کی صورت نکلا۔معاشروں میں ایم پی اے اور ایم این اے کو قانون سازی کے لیے ایوانوں میں بھجوایا جاتا ہے
نہ کہ روڑ رستے اور نالیاں پلیاں بنانے کے لیے۔ یہ کام ادارے کرتے ہیں لیکن یہاں تمام ادارے سیاسی قوتوں نے مفلوج کررکھے ہیں ان کے اختیارات سیاسی افراد استعمال کرتے ہیں
جس کے باعث ادارے عضو معطل بن کررہ گئے ہیں جس کا نتیجہ بدانتظامی کی صورت سامنے ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ طاقت ور اور بااختیار لوگ ملکوں کی ترقی کا باعث بنتے ہیں
لیکن ہمارے یہاں اس کے بلکل الٹ ہے کہ یہاں طاقت ور اور اختیار کے مالک اس ملک کی تباہی کا باعث بنے ہوئے ہیں اگر نیک نیتی اور اصول پرستی پر عمل کیا جاتا
تو ملک کو ترقی کی معراج پر لے جانے کے لیے 76 برس کیا کم ہیں۔لیکن ہم نے کنویں کے مینڈک کی طرح مختصر سی جگہ کو ہی کل کائنات سمجھ لیا ہے۔
ہم اپنے اپنے علاقوں میں اپنی اپنی جماعت کے پلیٹ فارم سے سرکاری فنڈز سے تعمیر ہونے والے منصوبوں پر اپنی چوہدراہٹ قائم کرکے خود کو معاشرے میں معزز کہلواتے ہیں۔
حالانکہ یہ کام ہمارے ہی پیسے سے کیا جاتا ہے لیکن ہمارے اکابرین ہمارا پیسہ ہم پر خرچ کرکے ہم پر احسان کرتے نظر آتے ہیں۔یہ ہمارے سوچنے کی بات ہے
کہ ہم اپنی پیسے سے بننے والے منصوبوں پر سیاسی رہنماؤں کے شکریے کے بیانات کیوں دیتے ہیں۔ شکریہ تو تب بنتا ہے جب یہ لوگ اپنی جیب سے ہمیں کوئی منصوبے دیں۔لیکن یہ کس طرح ممکن ہے۔