267

بیول نالہ کانسی گندگی کے ڈھیر میں تبدیل

جاوید کوثر کی تین سالہ کارکردگی

پاکستان شاید دنیا میں وہ واحد ملک ہے جہاں قانون بنانے والے ادارے تو موجود ہیں مگر قانون کی بالا دستی نہیں ہے المیہ یہ بھی ہے کہ جو لوگ قانون بناتے ہیں وہی قانون توڑتے ہیں پاکستان میں اب تو حالت یہ ہوچکی کہ ایک عام آدمی بھی قانون کو جوتے کی نوک پر رکھتا ہے جو کچھ ملک میں ہورہا ہے وہ انتہائی الارمنگ ہے سمجھوتوں میں الجھی ہوئی یہ قوم ایک خوشگوار اور طاقت ور معاشرے کی پرورش نہیں کرسکتی

طاقت ور اور بااختیار لوگ ملکوں کی ترقی کا باعث بنتے ہیں لیکن ہمارے یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے کہ طاقتور وبااختیار لوگ اور ان کے زیر سایہ پلنے والے افراد اس ملک کی تباہی وبربادی کا باعث بن رہے ہیں اگر نیک نیتی اور اصول پرستی پر عمل کیا جاتا تو ملک کی حالت یہ نہ ہوتی جو آج ہے۔ قانون اس دھرتی پر بری طرح بے حر مت ہوا ہے قانون کو لتاڑنے والوں اور انکے ووٹرز سپورٹرز نے اس ملک کو نوچنے کا جو سلسلہ قیام پاکستان کے وقت سے شروع کیا تھا وہ آج بھی جاری ہے بلکہ زیادہ شدت سے جاری ہے

۔ہم عجب ہیں ہمارا روگ بھی عجب ہرطاقتور اپنی بساط کے مطابق قانون کو روندنے میں مصروف ہے بیول کانسی جو ایک زمانے میں اپنے قدرتی حسن کی مثال ہوا کرتی تھی صاف وشفاف پانی اور پانی کے اندر موجود چھوٹے بڑے پتھر اور اس میں تیرتی نظر آتی چھوٹی بڑی مچھلیاں دلفریب منظر پیش کیا کرتی تھیں۔پھر اس کانسی پر ایک پل بنا کر عوام کو بارشوں میں آئے سیلابی پانی میں کانسی کے آر پار جانے کی محفوظ سہولت فراہم کی گئی پل پر کھڑے ہوکر عوام اس بل کھاتی کانسی (برساتی نالے) کی حسن سے محظوظ ہوتے تھے

۔پھر ترقی نے اس حسن کو گہنانا شروع کیا۔گھروں کوٹھیوں میں واش رومز تعمیر ہونے لگے جن کا آلودہ پانی اس کانسی میں ڈالا جانے لگا پھر صاف وشفاف پانی آلودہ ہوا تو اس ندی کا پاٹ بھی سکڑنے لگا آبی حیات دھیرے دھیرے ختم ہونے لگی۔خوبصورتی بدصورتی میں بدل گئی ہم نے گھروں کی گندگی اور بچوں کے پیمپر پل کے نیچے ڈمپ کرنا شروع کردئیے پھر پل کے اردگرد تجاوزات قائم کرنے والوں نے آخری وار کیا طاقت رکھنے والوں نے پل کے اطراف تعمیرات کرکے پل کے نیچے درجن بھر دروازے بند کردئیے اب پل کے اردگرد تاحدنگاہ تعمیرات دیکھائی دیتی ہیں کسی دور میں تین سو فٹ چوڑا پاٹ رکھنے والی یہ کانسی اس وقت سُکڑ کر پندرہ بیس فٹ کی نالی بن چکی ہے جس کا پانی انتہائی آلودہ ہے۔سرکاری اراضی بھی سیکڑوں کنال پر محیط ہے لیکن اس کو کسی مصرف میں نہیں لایا جاتا۔

بیول میں گراؤنڈ موجود نہیں اس پر گراؤنڈ بنایا جاسکتا ہے جس کے لئے طارق پرویزآف برطانیہ نے کوشش شروع کی تھی لیکن کچھ اناپرست اور حسد کے مارے راہ میں حائل ہوئے تو معاملہ آگے نہ بڑھ سکا۔قانون تماشا بنا تو قانون کا نام لے کر ہی بیول کانسی کی خوبصورتی کو گہنا دیا گیا جہاں کھڑے ہوکر کبھی انسان پرکیف نظاروں میں کھوجاتا کرتا تھا آج وہاں کھڑے ہونے سے گھٹن کا احساس بڑھ جاتا ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں