ہم من حیث القوم ایک ایسے نازک موڑ پر آگئے ہیں کہ ریاست کی بقا کے لیے جہاں اتحاد واتفاق ناگریز ہوچکا وہیں ملک میں رائج قوانین پر بھی سو فیصد عمل درآمد ضروری ہوچکا۔اب ہمیں ہر قانون پر بلا امتیاز عمل کرنا ہوگا سب پر ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے کردارکی ادائیگی لازم ہوچکی۔خصوصاً وہ محکمے جو قانون پر عملدرآمد کروانے کے پابند ہیں روز اول سے آج تک قانون صرف کتابوں میں درج ہونے کے لیے بنائے جاتے رہے یا ان کا نفاذ کمزور اور غریب افراد پر ہوتارہا ہے۔اس وقت ملک جس افراتفری اور انتشار کا شکارہے اس کی بڑی وجہ قانون کی عمل داری کا نہ ہونا ہے دیگر قوانین کی طرح قانون کرایہ داری ایکٹ 2015 پر عمل نہ ہونے کے باعث سنگین مسائل جنم لے رہے ہیں۔تحصیل گوجر خان خصوصاًبیول اور گرد ونواح میں غیرمقامی افراد کی بھرمار اور ان پر ایکٹ کا لاگو نہ ہونا کئی غیر اخلاقی کاموں کا پیش خیمہ ثابت ہورہا ہے۔ملک بھر میں ایکٹ 2015 مکمل طور پر نافذ عمل ہے لیکن بادی النظرمیں اس پر عمل درآمد صفر ہے۔اس قانون کے تحت مالک مکان کسی بھی کرائے دار کو مکان کرایے پر اُٹھانے کے فوری بعد کرایے دار کے تمام کوائف متعلقہ تھانے میں درج کروانے کا پابند قرار پاتا ہے۔قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب مالک مکان اور کرایے دارکو چھ ماہ قید اور دس ہزار جرمانے کی سزا ہوسکتی ہے۔لیکن بیول اور گرد ونواح میں اس قانون پر ایک فیصد بھی عمل دیکھائی نہیں دیتا۔کے پی کے کے علاوہ وسطی اور زیریں پنجاب سے سینکڑوں افراد اس وقت اس علاقے میں موجود ہیں جوبظاہر مختلف کاروبار سے وابسطہ ہیں ان کے یہاں آنے والے افراد (مہمانوں) کی بھی کوئی معلومات تھانے میں مہیا نہیں کی جاتیں‘کچھ حلقوں کا الزام ہے کہ ایکٹ 2015 پر عمل نہ ہونے کا فائدہ اُٹھا کر کالعدم تنظیموں کے لوگ بھی مبینہ طور پر یہاں اپنے اپنے ٹھکانے بنا چکے ہیں نتیجتاً علاقے میں جہاں منشیات فروشی کو فروغ ملا وہیں لوٹ مار کی وارداتیں بھی عام ہوئیں۔جسم فروشی اور زنابالرضا کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوچکا اور یہ دھند دیدہ دلیری سے کیا جارہا ہے ایسا نہیں ہے کہ ہر غیرمقامی خاندان ایسی غیراخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔لیکن کافی خاندان اس قسم کی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ اگر قانون کے تحت تمام غیر مقامی افراد کا ڈیٹا ان کا بیک ریکارڈ متعلقہ تھانے میں موجود ہو تو ان کے کردار کی اچھائی برائی کوپرکھا جاسکتا ہے دیکھا جائے تو کیا حکمران کیا ادارے اور کیا عوام سب پاکستان کے نظریات ومقاصد اور قانون کی پاسداری کر رہے ہیں تو جواب نفی میں ہوگا۔یہاں قانون بنانے والے اور اس قانون پر عمل کروانے والے ادارے تو موجود ہیں لیکن قانون کی بلادستی نہیں ہے جس دن ملک میں قانون آئین وقانون کا نفاذ اس کی اصل روح کے مطابق ہوگیا تو اندھیری نگری اور چوپٹ راج کا تاریک دور بھی ختم ہوجائے گا ورنہ اپنے ہی گھر میں اجنبی ہونے والی کیفیت کو کوئی ختم نہیں کرسکتا ہے سمجھوتوں میں الجھی یہ قوم ایک خوشگوار اور طاقت ور معاشرے کی پرورش نہیں کرسکے گی یہ قدرت کانظام ہے کہ چیز اپنے وقت پر اور اپنے مقام پر اچھی لگتی ہے مگر جب زندگی موت سے قبل ختم ہوجائے اورقانون استعمال سے پہلے کمزور پڑ جائے تو شعور کسی ناگہانی سے آگاہ کرتا ہے یہ ایک حقیقت ہے قانون کسی بھی ملک میں امن امان اور ترقی کا باعث بنتا ہے لیکن ہمارے یہاں اس کے بلکل الٹ ہے کہ یہاں قانون کو تماشا بنا کر معاشرے کی تباہی کا باعث بنا دیا گیا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ انتظامیہ اس قانون پر سختی سے عمل کروائے اور تمام غیر مقامی افراد کی مکمل معلومات حاصل کرتے ہوئے ان کے سابقہ رہائشی علاقوں کے متعلقہ تھانوں سے ان کے کریکٹر بارے تصدیق کی جائے۔
133