اکثر کہانیاں بہت سوچ سمجھ کر لکھی جاتی ہیں مگر بعض اوقات کسی کی زندگی کہانی کی مانند خود اپنے کرداروں کو لے کر اپنا آغاز درمیان اور اختتام مرتب کرتی ہے
اور کہانی کے مرکزی کردار کو احساس تک نہیں ہونی دیتی ہماری سیاست اور ہمارے سیاسی کرداروں کے لیے لکھی جانے والی کہانیاں بھی کچھ ایسی ہی ہیں
جو ان کے رائٹر لکھتے تو خوب ہیں لیکن وہ ان کرداروں کو احساس تک نہیں ہونے دیتے کہ انہیں اس کہانی کا مرکزی کردار بنانے والے ان کے کردار پر سوالیہ نشان لگا رہے ہیں۔
ہمارے نام نہاد رہبروں کی سوچ اپنے اردگرد جمع مفاد پرستوں اور کاسہ لیسی کے ہنر آشناؤں کی گرفت میں ہوتی ہے۔ انہیں جو پڑھایا جاتا ہے وہ من وعن اسی پر بولتے ہیں جو راستہ انہیں سوجھایا جاتا ہے وہ اسی پر آگے بڑھتے ہیں
جو نعرے اور وعدے انہیں ازبر کروائے جاتے ہیں وہ انہی نعروں وعدوں کو عوام کے سامنے پیش کر دیتے ہیں۔ یہ سوچے بنا کہ جو وعدے اور دعوے وہ کررہے ہیں
کیا وہ اس پر عمل کرسکنے کی پوزیشن میں ہیں۔ہمارے نام نہاد رہبروں اور خود ساختہ لیڈروں کے نعرے وعدے اور بیانات ایسے ہوتے ہیں جو سننے اور پڑھنے میں بہت حسین‘ دل آویز‘ ولولہ انگیز اور تاثر آمیز ہوتے ہیں
لیکن عوام نے ان پر کبھی کسی حکمران کو عمل کرتے نہیں دیکھا ان کے فرمودات تو بس خوش خطی سے لکھوا کر گھروں میں دفاتر مطالعہ گاہوں اور چوک چوراہوں میں آویزں کرنے کے لیے ہوتے ہیں یا اخبارات کی خالی جگہیں پر کرنے کے لیے کار آمد ہوتے ہیں۔
زبان ہلانے اور جھوٹ بول کر عوام کو راغب کرنے میں کوئی مظائقہ نہیں روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ ہو یا پاکستان سے غربت ختم کرکے اسے ایشین ٹائیگر بنانے کا دعوے۔
یا پھر سو روز میں کرپشن ختم کرنے کا وعدہ ہو یا ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کا خواب کس نے ان وعدوں کو پورا کیا۔76 برس گذر چکے دیکھا جائے تو آج بھی ہمیں سہانے خواب دیکھائے جارہے ہیں
تازہ ترین خواب پنجاب کی وزیراعلی مریم نواز کی جانب سے ستھرا پنجاب کے نام سے مارکیٹ کیا گیا ہے اس قبل یہی پروگرام صاف ستھرا پنجاب کے نام سے شروع کیا گیا تھا جس کا رزلٹ کم ازکم خطہ پوٹھوہار میں تو زیرورہا۔
ستھرا پنجاب کا منصوبہ شہری اور دیہی علاقوں کو کوڑا کرکٹ سے مکمل صاف رکھنے کا منصوبہ ہے۔جو کسی طور ممکن ہی نہیں۔اگر ہم صرف بیول کی ہی بات کریں تو کیا یونین کونسل بیول کے پاس اتنے وسائل ہیں
کہ وہ بیول شہر اور اس میں شامل دیہاتوں کی صفائی کو ممکن بنا سکے۔یقینا جواب نفی میں ہوگا کیونکہ یونین کونسل کے پاس سنیٹری ورکرز کی تعداد ہی گنی چنی ہے
جو بیول شہر کی صفائی کرنے سے بھی قاصر ہیں بیول شہر ہو یا بیول کے گلی محلے ہر جانب کچرے کے ڈھیر نظر آتے ہیں سوریج کا گندا پانی سڑکوں اور گذر گاہوں میں بہتا دیکھائی دیتا ہے
جبکہ بیول کے مضافاتی علاقے اس سے بھی بدتر حالت میں ہیں ایسے میں ستھرا پنجاب کا ڈرامہ صرف عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے تو ہوسکتا لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں
جب صاف ستھرا پنجاب کا پروگرام آیا تو اس وقت بھی بیول شہر حسب سابق گندگی کے ڈھیروں سیاٹھتے تعفن سے متاثر تھا۔اب وزیراعلی موصوفہ نے صاف ستھرا پنجاب کو صرف ستھرا پنجاب کا نام دے کر ری لانچ کیا ہے
جو صرف عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے ہے۔یہاں بحث طبقاتی کشمکش کی نہیں بلکہ بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی سے پیدا ہونے والے مسائل کی ہے اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے تحاشہ قدرتی وسائل سے نوازا ہے
اس کے باوجود ہماری زوال پذیری ہمارے سیاست دانوں اور چوکیداروں کی نااہلی اور ہوس زر کی وجہ سے ہے ایک حبس کا عالم سے گھٹن ہے
اور گھٹن زدہ ماحول میں عوام سسک رہے ہیں وسائل پر قابض افراد کی لوٹ مار کی وجہ سے نعمتوں سے نوازے جانے والے اس ملک کے باشندے تباہ حال زندگی جینے پر مجبور ہیں انہیں کبھی روٹی کپڑا اور مکان کا دلفریب نعرہ دیا جاتا ہے
کبھی کرپشن سے پاک نیا پاکستان کا خواب بیچا جاتا ہے تو کبھی ستھرا پنجاب اور ایشن ٹائیگر کا لولی پاپ دے کر بے وقوف بنایا جاتا ہے۔ہم ہیں کہ بس تالیاں پیٹتے ہیں۔
میں کوئی کوئی اور رائے رکھتا ہو تم کوئی اور رائے رکھتے ہوں میں کسی اور جماعت سے ہوں تم کسی اور جماعت ہے۔میں اپنی جماعت کے ہر کام کا دفاع کرتا ہوں تم اپنی جماعت کی جھوٹ کو سپورٹ کرتے
ہو بس یہی وجہ ہے کہ ہمیں 76 برسوں سے بے وقوف بنا کر یہ لوگ ہم پر مسلط ہیں۔بس سمجھ لیں کہ یہاں تضاد ہی زندگی کا سب سے مقبول نظریہ ہے