ہمارے سماج میں قانون بنتے بھی اور قانون کی کتابوں میں درج بھی کیے جاتے ہیں لیکن جب ان قوانین کی باگ دوڑ بااثر سماج کے روایتی نظام تک پہنچتی ہے تو اس کے معنی بدل جاتے ہیں کیونکہ یہاں بالا دست طبقے کی خوشنودی ہی قانون کی اصل تعریف وتشریح ٹھہرتی ہے۔قانون کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو اس پر عملدرآمد نہ ہوسکے تو وہ محض کاغذ کے ایک پرزے سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا ویسے بھی قانون کیا ہم تو آئین شکنی میں بھی خاصہ کمال رکھتے ہیں ہم یہ بھول چکے ہیں کہ جہاں امیدیں دم توڑتی ہیں وہاں سے آگے معدومیت کا بھیانک سفر شروع ہوتا ہے اور یہ سفر اس وقت پوری طرح جاری ہے۔دنیا میں ہر مرض کا علاج موجود ہے مگر بعض ایسے موذی مرض لاحق ہوجاتے ہیں جن کا علاج کہیں ممکن نہیں رہتا خصوصاً وہ آزار جو روح کی گہرائیوں میں سرایت کرچکے ہوں ہمارے معاشرے میں چار سو پھیلی کہانیاں جہاں ہمارے قانون کی تماشہ گری کو واضح کرتی ہیں وہیں بحیثت قوم ہماری بے حسی کو بھی اجاگر کرتی ہیں۔ہمارے اردگرد کیا غیر قانونی ہورہا ہے ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں ہمارے قریب وجوار میں کہیں جسم فروشی ہورہی تو کہیں منشیات فروشی کہیں جوئے کے اڈے چلائے جارہے ہیں تو کہیں گلیوں‘سڑکوں پر تجاوزات کے لیے قبضے۔لیکن بے حسی اس قدر عروج پر ہے کہ کوئی ان خرافات پر بولنے کو تیار نہیں ہمیں اس بات کا ادراک ہی نہیں کہ براء کی اس آگ میں ہمارا اپنا آشیانہ بھی جل سکتا ہے کہتے ہیں ایک مچھلی سارے تالاب کو گندہ کردیتی ہے۔کیا جسم فروشی میں ملوث خاندان کی گندگی شرفاء کی دستاروں تک نہیں پہنچ سکتی۔اسی طرح منشیات کی وبا کیا ہماری اولادوں کو اس پر راغب نہیں کرسکتی۔کیاجوئے کے اڈے ہماری نسل نو کو اس غیر قانونی عمل سے پیسہ کمانے کی ہوس میں مبتلا نہیں کرسکتے۔اس وقت بیول اور گرد ونواح میں یہ تمام برائیوں تیزی سے پرورش پارہی ہیں اور ان برائیوں کے محور وہ غیر مقامی لوگ ہیں جو ملک کے مختلف علاقوں سے پوٹھوہار کی سرزمین پر آبسے ہیں ان لوگوں کو جگہ فراہم کرنے والے مقامی لوگوں نے قانون کرایہ داری ایکٹ 2015 کے تحت ان لوگوں کے کوائف متعلقہ تھانوں میں جمع نہیں کروائے۔جبکہ پولیس بھی بڑے پیمانے پر ہجرت کر کے یہاں آنے والوں کو مانیٹر کے قانونی عمل سے گریزاں ہیں اسی باعث ان غیرمقامی افراد کی آمد میں جرائم پیشہ لوگ بھی باآسانی یہاں پناہ گزیں ہیں شاید کہیں اکادکا افراد نے قانون کو فالو کیا ہو۔ ان غیر مقامی افراد کی آمد کی آڑ میں یہاں پہنچنے والے کرمنل ذہن کے افراد نے خطہ پوٹھوہار کو سماجی برائیوں میں مبتلا کردیا ہے۔بیول اور گرد ونواح میں منشیات فروشی‘جسم فروشی کے علاوہ بنجاروں کی چھونپڑپٹیوں میں سے مبینہ طور پر کچھ چھونپڑیوں میں جوئے کے اڈے چلائے جارہے ہیں۔جن میں ان چھوپنڑیوں کے مکینوں کے علاوہ مقامی افراد کی بڑی تعداد بھی جواء کھیلنے کے لیے آتی ہے اور یہ برائی بھی مقامی افراد میں تیزی سے پھیل رہی ہے اور وقت دور نہیں جب ہمارے بچے اور نوجوان ان کا شکار ہوکر جوا ء کھیلنے کے لیے ان چھوپنڑیوں کا رخ کریں گے اور پھر یہ علت انہیں چوری چکاری پر آمادہ کرے گی ذرائع کا کہنا ہے کہ ان جھونپٹریوں میں بڑے پیمانے پر روزانہ جواء کھیلا جاتا ہے اور اب یہ کوئی راز بھی نہیں رہا عام افراد کو اس بارے علم ہوسکتا ہے تو کیا جگہ جگہ اپنے مخبر رکھنے والی پولیس اس دھندے سے بے خبر ہوگی۔ہرگز نہیں پولیس کو تمام برائیوں کا بخوبی علم ہے لیکن سفارش اور رشوت کلچر قانون کی عملداری میں بڑی رکاوٹ ہے سفارش کی بدعت نے ہی رشوت کلچر کو جنم دیا ہے جب آنکھیں بند رکھنے کی سفارش کی جاتی ہے تو پھر آنکھیں بند اور ہاتھ پھیل جاتے ہیں کیونکہ قانون کو مفت میں نہیں بیچا جاسکتا ہے۔مقامی آبادی کو چاہیے کہ اپنی آنے والی نسلوں کو تباہی سے بچانے کے لیے ملکر ان برائیوں کے خلاف آوازاُٹھائیں بصورت دیگر یہ علاقہ جلد ہی علاقہ غیر نظر آئے گا اور اپ کے پاس سوائے پچھتاوے کے اور کچھ باقی نہیں بچے گا۔
