111

بیول مرکز صحت سے ڈاکٹر غائب

تجسس کے عنصر کا بھی اپنا ہی ایک حسن ہے خوبی یہ ہے کہ جب تک انسان کھوج وتجسس میں مبتلا رہتا ہے اس کے گرد سرشاری ومسرت کا ایک ان دیکھاجالاسا تن جاتا ہے لیکن جیسے ہی علم وآگہی کا انکشاف ہوتا ہے تو خوشی فنا ہوجاتی ہے گذشتہ دنوں ایم پی اے چوہدری جاوید کوثر سے ہونے والی ملاقات میں جب انہوں نے اپنے عوامی بھلائی بارے اُٹھائے اقدامات کی تفصیل بتاتے ہوئے بیول بی ایچ یو کو ہفتہ بھر چوبیس گھنٹے سروس فراہمی پر منتقل کروانے کا دعویٰ کیا تو میں نے بہت خوشی محسوس کی کہ اس سے علاقے کے غریب ونادار افراد کو مارننگ ایوننگ اور نائٹ میں کسی ایمرجنسی کی صورت میں علاج معالجے کی سہولت میسر ہوگی۔میرے گرد بھی سرشاری اور مسرت کا ایک جالا تن گیا تجسس ہوا کہ بی ایچ یو کے چوبیس گھنٹے سروس فراہمی کے حوالے سے مارننگ‘ایوننگ اورنآئٹ میں اسٹاف کی کیا پوزیشن ہے لیکن جب آگہی ملی تو انکشاف ہوا کہ چوبیس گھنٹے سروس فراہمی صرف کاغذات تک ہی محدود ہے۔اس پر عملی کام بلکل ہی نہیں کیا گیا۔یونٹ صرف مارننگ یعنی دن دو بجے تک سروس فراہم کرتا ہے جبکہ اسپتال ایک طویل مدت سے ڈاکٹر کی تعیناتی سے محروم ہے اسپتال کو ایک ایل ایچ وی کی خدمات سے چلایا جا رہا ہے ذرائع کے مطابق کچھ عرصہ قبل بی ایچ یو میں تعینات فیمیل ڈاکٹر راولپنڈی سے روزانہ آوٹ بیک کرتی تھیں جو یقیناََ ان کے لیے ایک مشکل امر تھا اس لیے کچھ عرصہ بعد ٹرانسفر کروانے پر مجبور ہوگئیں۔ ان کی ٹرانسفر کے بعد سے بی ایچ یو ڈاکٹر کی خدمات سے محروم ہے۔جبکہ کچھ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ فیمیل ڈاکٹر یہاں تعینات ہے لیکن وہ کرونا کے حوالے سے جنرل ڈیوٹی پر ہیں اور یہاں تعینات پیرا میڈیکل اسٹاف مریضوں کو ٹریٹ کررہا ہے۔اسپتال کو چوبیس گھنٹے سروس فراہمی پر منتقل کرنے کے باوجود ایوننگ اور نائٹ کے لیے اسٹاف فراہم نہ کرنا علاقہ کی عوام سے زیادتی کے مترادف ہے۔ایم پی اے صاحب نے عوامی بھلائی کے لیے جو قدم اُٹھایا وہ صرف کاغذات کی حد تک ہی رہا۔منظوری کے بعد انہیں اس پر ضرور غور کرنا چاہیے تھا کہ تین شفٹوں کے لیے اسٹاف کی فراہمی بھی ضروری ہے۔ذرائع کا ماننا ہے کہ چوبیس گھنٹے پر منتقل ہونے کے بعد دو ایل ایچ وی کی یہاں پوسٹنگ بھی ہوئی تاہم ان دونوں کی جانب سے جوائنگ نہیں کی گئی۔اسوقت بی ایچ یو میں مارننگ کے لیے تعینات پیرا میڈیکل کا تین رکنی اسٹاف اپنے فرائض پوری ایمانداری سے سرانجام دے رہا ہے۔لیکن یہاں ڈاکٹر کی تعیناتی بہت ضروری ہے کیونکہ ڈاکٹر کی سہولت کا نہ ہونا یہاں کے عوام کا استحصال ہے نہ جانے ملک سے یہ استحصالی صورتحال کب ختم ہو گی اور میری پاک سرزمین پر وہ وقت آئے گا جب قوم اپنی زبان سے شکرخداوندی کے ساتھ ساتھ اپنی خوشحالی اور غیرا ستحصالی زندگی کا اقرار کرے گی۔کبھی تو میں سوچتا ہوں کہ آخر ہمارے بزرگوں نے انگریز سامراج کی پتھریلی چوٹی سے آخر کیوں ٹکر لی انہوں نے سامراج سے آزای حاصل کرنے کے لیے کیوں اپنی جان مال اور عصمتوں کی قربانی دی۔کیوں اپنا لہو بہایا کیوں اذیتیں اُٹھائی اور کیوں عذاب بھگتے کیا اس لیے کہ ایک ملک ایک مخصوص گرو آزادی کے تمام ثمرات سمیٹ لے اور اس کے اصل حقداروں کو اپنا غلام بنا کر انہیں لولی لنگڑی سہولیات کو ایک احسان اور خیرات کے طور پر ڈلیور کرے ایم پی اے صاحب کو بھی ان مسائل کا بخوبی علم ہوگا اور وہ حلقہ میں عوامی ایم پی اے کے طور پکارے جاتے ہیں وہ عوامی بھلائی کے کاموں میں خاصی دلچسپی بھی لیتے ہیں انہیں علاج جسی بنیادی سہولت کی فراہمی کے لیے بی ایچ یو کے لیے فوری طور ڈاکٹر کی فراہمی ممکن بنانا چاہیے۔کیونکہ اگر وہ بی ایچ یو کو ڈاکٹر اور ایوننگ ونائٹ کی شفٹوں کے لیے اسٹاف فراہم نہیں کرواتے تو پھر اسپتال کے کاغذات میں چوبیس گھنٹے سروس فراہمی ایک مذاق سے زیادہ کچھ نہیں۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں