انسان کو اللہ تعالیٰ نے اتنی قدرت دی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اپنے لیے راستوں کا انتخاب کر سکتا ہے لیکن ہدایت کا یہ تحفہ قسمت والوں کو ہی ملتا ہے اگرچہ انسانی معاشرے اور جنگل کے ماحول میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے لیکن جب انسان جانور بن جاتا ہے تو پھر جنگل اور انسانی معاشرے میں پائی جانے والی مطابقت کبھی کبھی ایک داستان رقم کرتی ہے۔اسوقت پاکستانی معاشرہ بھی جنگل کا ماحول لیے ہوا ہے جہاں ہر جانب مادر پدر آزادی کے مناظر روز دیکھنے کو ملتے ہیں یہاں مافیاز کی ہوشیاریاں اور تباہ کاریاں عروج پر ہیں یہاں سفارش اور زر کی حکمرانی ہے یہاں تجسس اور پیہم کروٹ بدلتے پیچ وخم ہیں ہر موڑ پر ایک نیا پیچ سوال پر سوال موڑ در موڑ ہیں۔یہاں ہوس زر کے اندھے کرداروں نے ایک جال بچھا رکھا ہے جس کی بھول‘بھلیوں میں قوم ایسی گم ہوئی ہے کہ سچ کی تلاش میں نڈھال ہوچکی۔درد وغم اور خون آشام چیرہ دستیوں نے قوم کو گھائل کردیا ہے ہماری نسلیں معاشرے کے گھناونے کرداروں کی وجہ سے لہولہان لمحوں میں پروان چڑھ رہی ہیں۔قوم کے درد کا کوئی درماں نہیں۔ کیا سیاست دان‘ کیا محافظ‘کیا منصف سب ہی لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہیں ادھ موئی قوم صرف اشرافیہ کے ہاتھوں ہی نہیں لٹتی بلکہ اس اشرافیہ کی پشت پناہی سے پرورش پانے والے معاشرتی ناسوروں کے ہاتھوں بھی لٹتی ہے۔نوجوان نسل کو برائیوں میں مبتلا کرنے والے کہیں جوئے کے کہیں جسم فروشی کے اور کہیں منشیات کے اڈے چلا کر ہماری نوجوان نسل کے اخلاقیات کی تباہی میں مصروف ہیں۔پیسہ اینٹھنے کے ساتھ ساتھ یہ ہمارے نوجوانوں کو جان لیوا بیماریوں میں مبتلا کر رہے ہیں ان کی گرفت نہ ہونے کی بڑی وجہ ان کرداروں کی سیاسی پشت پناہی اور ہوس زر ہے۔
برائیوں کے خلاف کاروائی کے ذمہ دار ادارے سیاسی مداخلت کے باعث مجبور ہیں اور اس مجبوری کا فائدہ وہ کاروائی نہ کرنے کے عیوض ماہانہ نذرانہ لے کر اُٹھاتے ہیں۔لیکن کبھی کبھی کچھ اچھا بھی کرجاتے ہیں جس پر تعریف بنتی ہے گو کہ یہ فرائض میں شامل ہے۔لیکن موجودہ دور میں فرائض کی ادائیگی حیران کن ہوتی ہے۔گوجرخان پولیس کی جانب سے گذشتہ دنوں پانچ معاشرتی ناسوروں کی گرفتاری بھی اس حوالے سے قابل تعریف ٹھہرتی ہے کہ تھانے کی حددو میں ڈکیتی‘رہزنی‘چوری چکاری کے بے تحاشہ واقعات رپورٹ ہوتے رہتے ہیں لیکن کسی بھی واردات کاسراغ نہیں ملتا۔جبکہ منشیات فروشی اور جوئے کے اڈوں کی الگ کہانیاں ہیں ایسے میں اگر لوٹ مار‘چوری چکاری میں ملوث کچھ لوگوں کی پولیس کے ہاتھوں گرفت ہوتی ہے تو یقیناً اس ماحول میں لائق تحسین عمل ہے گرفتار افراد میں عمیر‘سہیل‘شہزاد‘طاہر اور ناصر نامی نوجوان کا تعلق چلو چکڑالی‘ڈھوک دل محمد‘ٹکال اور مرزا کمبیلی سے بتایا جاتا ہے یعنی یہ لوگ مقامی ہیں یہ ایک المیہ ہے۔پولیس کے مطابق ملزمان گھروں‘دوکانوں کے تالے توڑ کر رقم اور قیمتی اشیاء چرانے کی ورادتیں کرتے تھے پولیس نے گرفتار ملزمان سے تین لاکھ دس ہزار کی مسروقہ رقم اور پاسپورٹ برآمد کرنے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔پولیس کاماننا ہے کہ ان کے سہولت کار بھی جلد گرفتار ہوں گے یعنی ان کے پشت پناہ موجود ہیں۔لیکن شاید پولیس انہیں گرفتار نہ کرسکے کیونکہ یقیناََ یہ پشت پناہی یا سہولت کار کوئی عام شہری نہیں ہوسکتے بااثر اور صاحب حیثیت افراد ہوں گے جن پر ہاتھ ڈالنا پولیس کے لیے ممکن نہیں ہوگا۔پولیس گرفتار ملزمان دوران تفتیش ملنے والی انفارمیشن کے تحت سہولت کاروں کی گرفتاری کرسکتی ہے لیکن اگر وہ گرفتاری میں ناکام رہتی ہے تو معاشرے میں معزز کہلانے والے ان کرمنل مائنڈ افراد کے نام میڈیا کے سامنے لائیں جائیں تاکہ کم ازکم ان معززین کے گھناؤنے چہروں سے شرافت کے نقاب اتار کر انکا اصل چہرہ علاقے کے عوام کے سامنے لایا جاسکے۔لیکن پولیس یہ بھی نہیں کرے گی۔سیاسی مداخلت کے علاوہ کاغذ کے کڑک ٹکڑے بھی ایسے کیسوں میں بہت اہم ہوتے ہیں۔