229

بڑا مقابلہ چوہدری نثار علی خان‘ قمرالسلام راجہ‘ اجمل صابر آمنے سامنے آگئے

راولپنڈی (رجب علی راجہ نمائندہ پنڈی پوسٹ )راجگان دھمیال پانچ سال کینٹ کی سیاست کے بعد اپنے آبائی حلقہ این اے 53 میں واپس جبکہ مشکل وقت چٹان کیر طرح ساتھ کھڑے رہنے والے بہادر انسان کرنل اجمل صابر راجا، مہران اعجاز ایڈوکیٹ اور پیر آف سروبہ شریف میدان عمل میں آ گئے پیر آف سروبہ. شریف 8مئی کو تحریک انصاف میں شامل ہوئے پاکستان تحریک انصاف پر 9مئی آ گیا۔ لمبی خاموشی کے بعد ن لیگی قیادت سے ملے ٹکٹ کے لیے درخواست دی عزت ناں ملنے پر واپس آ گئے پیر صاحب کے اس فیصلہ کو ووٹر عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھ رہے۔ جبکہ مرید پیروں کے فیصلہ کا دل سے خیر مقدم کر رہے ہیں تحریک انصاف کی اعلی قیادت سے مل کر دوبارہ مشکل میں گری پارٹی میں قومی اور صوبائی امیدوار کے طور پر سامنے آ گئے بروز اتوار 24دسمبر ورکر کنونشن اور شمولتی پروکرام کی تیاریاں مکمل سروبہ شریف کی سیاست کا رخ شمولیتی پروگرام یا ورکرکنونشن کی مرہون منت ہے۔

گدی نشین ثروبہ شریف سید منیر الحسنین شاہ بنیادی طور پر ہمیشہ سے پاکستان تحریک انصاف کی سیاست کو پسند کرتے ہیں اور ملکی سیاسی اور معاشی حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں اس لیے انھوں نے بڑے بھائی سید نصیر الحسنین شاہ کو ن لیگی سیاست کو چھوڑ کر تحریک انصاف کے صوبائی اور قومی سیٹ کے لیے امیدوار کے طور پر سامنے پیش کر دیا پیر منیر الحسنین ذاتی طور پر روحانی اور سماجی رہنما ہیں جب کی حلقہ این اے 53میں انکا ایک بڑا مریدین کا سلسلہ ہے اگر پی ٹی ائی انکو ٹکٹ دے اور پی ٹی ائی کے ورکر اور رہنما دل سے انکا ساتھ دیں اور انتہائی کم اورمشکل وقت میں اپنا ووٹ پول کروا پائیں تو یہ مقابلہ بن سکتا ہے اور پاکستان تحریک انصاف یہ سیٹ جیت سکتی ہے، کرنل اجمل صابر راجا ایک مضبوط امیدوار ہیں لیکن ریاستی جبر اور پابندیوں کی وجہ سے شاہد وہ اس الیکشن میں حصہ نہ لے سکیں لیکن انکی حمایت کس کے ساتھ ہو گئی یہ فیصلہ ابھی باقی ہے کرنل اجمل صابر نے ہمیشہ قربانیاں دی ہیں اور یہ حقیقی لیڈر ہیں۔

اسکے علاوہ اسی حلقہ سے پی ٹی آئی کے نوجوان لیڈر اور ایڈوکیٹ مہران اعجاز چوہدری بھی میدان عمل میں ہیں انکا علاقے کا ووٹ اور پِی ٹی ائی کے ووٹ کے علاوہ ذاتی ووٹ نہیں ہے لیکن اگر یہ لوگوں کو ساتھ ملا لیں تو یہ بھی بہترین نظریاتی امیدوار کے طور پر سامنے آ سکتے ہیں۔چوہدری نثار علی خان کی سیاست کا اگر جائزہ لیا جائے تو انتہائی باوقار سیاست دان ہیں سیاست میں عزت قائم رکھنے والے پاکستان کے درجن بھر کامیاب سیاست دانوں میں انکا شمار ہوتا ہے لیکن وہ علاقے کی ترقی کے لیے وہ کچھ نہ کر پائے جو انھیں اپنے دور حکومت میں کرنا چائیے تھا چالیس سالہ سیاسی کرئیر میں وہ حلقہ کے تمام لوگوں کو گیس، ہسپتال اور یونیورسٹی دینے سے محروم رہے گزشتہ الیکشن میں صوبائی سیٹ جیت کر انھوں نے احتجاجا تین سال حلف نہ لیکر انھوں نے اپنے ووٹر کی توہین کی اور علاقے کو صوبائی جیتی ہوئی سیٹ کے ثمرات سے عوام کو محروم رکھا۔ گزشتہ پانچ سالوں سے سیاسی منظر نامہ سے اور ووٹر سے دور رہے لیکن اپنے حلقے کے چئیرمینوں کے ساتھ مسلسل رابط میں ہیں قومی اسمبلی کے دوحلقوں میں شکست نے انکی انا کو ٹھیس پہنچائی انکا سیاست کرنے کا انداز بالکل منفرد ہے چوہدری نثار عام عوام کو گھاس نہیں ڈالتے اورانکے مسائل سے بھی بالکل غافل ہیں اور عوامی سیاست انکے مزاج کا حصہ نہیں ہر یونین کونسل کے چئیرمینوں کو اپنے دوستوں کی صف میں رکھتے ہیں ان سے کام لینا جانتے ہیں یونین کونسل کا ایک چئیرمین اپنا اچھا خاصہ ووٹ بنک رکھتا ہے۔ چوہدری نثار علی خان اپنے ان وفادار لوگوں کی باتوں پر خوش ہوتے ہیں اور انکو نوازتے بھی ہیں وہ اپنے ساتھ ہر قسم کے لوگوں کو رکھتے ہیں جو عوامی طاقت اور علاقے پر اثر رسوخ رکھنے والے ہوتے ہیں اور زبردستی ووٹ ڈالوانا جانتے ہیں نون لیگ اور پی ٹی ائی اگر بہترین امیدواروں کو ٹکٹ نہیں دے پاتی تو چوہدری نثار علی خان ذاتی ووٹ کی بنا کر دونوں سیٹیں نکال سکتے ہیں۔

ن لیگی نائب صدر راولپنڈی قمر السلام راجہ باقائدہ طور پر گزشتہ پانچ سال سے حلقہ کے ن لیگی ورکرز کے ساتھ رابطے میں ہیں اورمضبوط امیدوار کے طور پر سامنے ہیں ن لیگی ورکرز کے علاوہ انکا اس حلقے میں ذاتی ووٹ ناں ہونے کے برابر ہے آپ میاں صاحب کے خاص اور مخلص لیڈر ہیں میاں صاحب انکو کسی بہترین جگہ پر سیٹ ضرور کریں گے قمر السلام راجا میاں صاحب کے ہر فیصلہ کا احترام کریں گے دوچار دونوں میں سب حقیقت سامنے آ جائے گئی۔ ن لیگی قیادت کا صوبائی سیٹ کے فیصلہ کا اثر قومی سیٹ کی جیت پر بہت گہرا ہوگا دوسرے طرف ن لیگ کے امیدوار کے طور پر اسی الیکشن میں سامنے آنے والے نئے امیدوار بزنس مین ایک نجی ہاوسنگ سوسائٹی کے مالک چوہدری نعیم اعجاز کے الیکشن میں آنے کے بعد چکری روڈ پر قتل کا ایک لمبا چوڑا سلسلہ رک گیا شاہد نجی سٹی کے مالکان کا سیاست میں آنے پر خریداری روکنے کی وجہ سے موت کا خونی کھیل بند ہو گیا اللہ پاک چکری اور چونترہ کے لوگوں کو اپنے حفظ امان میں رکھے۔ چوہدری نعیم اعجاز الیکشن کمپین میں پیسہ پانی کی طرح بہا رہے ہیں تھانہ چونترہ کے درجنوں دہہاتوں میں سکولز ڈسپنسری گلیاں اور دیگر بنیادی سہولیات پر کام کر رہے ہیں اور چونترہ کے لوگ ان کے اس کام پر کافی خوشی کا اظہار بھی کر رہے ہیں انکا ہر جلسہ کامیاب بھی ہو رہا ہے لوگوں کا کہنا ہے انکے ملازمین کی تعداد ہزاروں میں ہے ہر جلسے میں وہ اپنے ساتھ گاڑیاں بھر کر لاتے ہیں جس سے جلسہ کامیاب ہو جاتا ہے اگر ان کو ٹکٹ نہیں ملتا تو کیا یہ ن لیگی امیدوار کے ساتھ چل پائیں گے یہ بات کہنا قبل از وقت ہو گی ن لیگ کو اس حلقہ میں سیٹ نکالنے کے لیے سخت محنت کرنا پڑھے گی۔ جبکہ ان حلقوں میں قومی اور صوبائی سیٹوں پر ٹکٹوں کا فیصلہ بہت اہمیت کا حامل ہو گا۔ تحریک لبیک پاکستان کے قومی اسمبلی کے امیدوار تیمور خالد چونترہ کے پڑھے لکھے نوجوان ہیں اور لوگوں سے انکا ذاتی تعلق تو شاہد اس طرح کا نہیں لیکن ایک مقبول مذہبی جماعت کے نئے باکردار نوجوان کے طور پر اور اسلام کا نام لیکر وہ بھی اپنا ایک مضبوط ووٹ بنک بنا لیں گے

اگر امیر ٹی ایل پی حافط سعد رضوی اس حلقہ میں ایک دو جلسوں میں شریک ہو جاتے ہیں تو ووٹ بینک انکا مزید بہتر ہو سکتا ہے۔ جماعت اسلامی ایک بہت اہم اور مضبوط جماعت ہے انکے امیدوار قابل ایماندار اور باکردار لوگ ہیں اس دفعہ چوہدری محمد عارف گجر کو جماعت اسلامی نے منتخب کیا اور آپ عملی طور پر گزشتہ پانچ سالوں سے عوام میں ہیں درجنوں ریلیوں، کانفرنسز سیلاب فنڈ فلسطینی مظلوم عوام کے لیے فنڈ اور بچیوں کی شادی کے لیے جہیز اور خواتیں کو باروزگار بنانے کے لیے سلائی مشین وغیرہ الخدمت کے پلیٹ فارم سے دے رہے ہیں جماعت اسلامی ہر مشکل وقت میں عوام کے شانہ بشانہ نظر آتی ہے لیکن لوگ ان باکردار لوگوں کو ووٹ کیوں نہیں دیتے یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ ملکی سیاست کی ہر لمحہ بدلتی صورت حالت کی بدولت یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کے کون سا امیدوار بہتر ہے۔ لیکن آنے والے چند دونوں میں پارٹیوں کے امیدواروں کا درست چناؤ پر یہ فیصلہ سامنے آ جائے گا۔ اس ساری صورت حال میں اہم ترین بات یہ ہے کیا اب پی ٹی آئی سیاسی جماعت نہیں رہی اور اگر عدالتوں کی طرف سے کوئی ریلیف نہیں ملتا تو اس کے نقصانات کی نوعیت کیا ہوئی گی اس کے امیدوار آزاد حیثیت سے میدان میں اترے گے اور حلقے سے پی ٹی ائی ووٹرز مخمسے کا شکار ہو سکتے ہیں اسکا فائدہ دوسرے امیدواروں کو ہو گا۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں