188

بوڑھا برگد

صبح سویرے واک کے لیے نکلا ہر سو خاموشی کا سماں تھا۔سورج طلوع ہونے کے لیے کرنیں پھوٹ رہی تھیں. رات کو ابر رحمت برسنے سے ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں گرمی کا زور ٹوٹنے کے بعد روح و جسم کو خنکی محسوس ہورہی تھی.

گھر سے ایک ڈیڑھ کلو میٹر کے فاصلہ پر پہنچا تو حسب معمول پرندوں کے چہچہانے کی آواز آرہی تھی اور نہ ہی مینڈک کی تراتوں کی گونج کانوں پڑ رہی تھی عجیب پر اسرار خاموشی سے ذہنی کیفیت میں تبدیلی محسوس ہونے لگی.

تھوڑاآگے چل کردیکھتا ہوں کہ تالاب کے کنارے لگے صدیوں پرانے برگد کے درخت کا ایک حصہ رات ہونے والی طوفانی بارش اور ژالہ باری سے زمیں بوس ہوچکا، پرندوں کے گھونسلے ٹوٹ چکے .انڈے اور بچے ضائع ہوچکے, زمین پر مختلف قسم کے پرندے مرے پڑے تھے جو زندہ بچ گئے وہ اڑان بھرنے کے قابل نہیں انتہائی دردناک منظر میری آنکھوں کے سامنے تھا۔

پرندوں کی اموات کا دکھ اپنی جگہ،لیکن بوڑھے برگدکے درخت سے ہمارے ماضی و بچپن کی یادیں وابستہ تھیں۔ جب گاؤں میں بجلی سے چلنے والے پنکھوں اور آج جیسی ائیر کنڈیشنزکی سہولیات ناپید تھیں گاؤں اور گردونواح کے باسی جون و جولائی کی گرمی اور سورج کی تپش سے بچنے کے لیے برگد کی گھنی چھاؤں میں دن گزارنے کو ترجیح دیتے۔

دن کا آغاز ہوتے ہی بچے کاپیاں پنسل اٹھائے ٹھنڈی چھاؤں میں سکول کا کام کرنے میں مصروف ہوجاتے،کچھ گُلی ڈنڈا کا کھیل سجا لیتے، چند ایک تو درخت پر پکڑ پکڑائی کا کھیل کھیلتے ہوئے دور تک پھیلے ہوئے بڑے بڑے پرخطر ٹہنوں پر ایسے دوڑتے جیسے کہ کھیتوں کی پگڈنڈی پر بھاگ رہے ہوں ساتھی کی پکڑ سے بچنے کے لیے ٹہنیوں سے لٹکتی جڑوں سے لپکتے ہوئے زمین پہ آجاتے ان کے اترنے اور لپکنے کا منظر بھی کسی سرکس کے سین سے کم نہ ہوتا۔

کچھ بچے تو برگد کی لچکدار ٹہنیوں کے کنارے بیٹھتے اور دوسرے ساتھی نیچے سے کھینچ کر زمین کے قریب لاکر چھوڑتے اور ٹہنی پر بیٹھا جھو لیتا۔ یہ شغل ومیلہ سارا دن اور گرمیوں کا سارا موسم چلتا رہتا۔دوپہر کوگرمی کے ستائے

قمیضیں اتار کر تالاب میں ڈبکیاں لگاتے اور نہانا شروع کردیتے جس کی وجہ سے ہر بچہ بچپن میں ہی تیراک بن جاتا تھا۔چند شرارتی بچے تو درخت پر بنے شہید کی مکھیوں کے چھتوں پر پتھر پھینک کر خود بھاگ کر کہیں چھپ جاتے لیکن مکھیاں چھاؤں میں بیٹھے لیٹے اور راہ چلتے لوگوں پر حملہ کرتیں پھر ان کو بھاگتے دیکھ کر خوب انجوائے کرتے۔

بوڑھے بابوں کی بھی ٹھنڈی ٹھنڈی مٹی پر خوب محفلیں سجتی۔ کوئی اپنی زندگی کی کہانی سنا رہا ہوتا اور کوئی حالات حاضرہ پر تبصرہ کررہا ہوتا چند ایک لوگ اپنے مال مویشیوں کو بھی ساتھ لے آتے تالاب سے پانی پلاتے نہلاتے ٹھنڈا کر کے ان کو چراہ گاہ چھوڑ دیتے اور خود چھاؤں سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہر دو‘چارسال بعد گرمیوں کے آغاز سے قبل ہی تالاب سے صفائی کرائی جاتی ،

لیکن اکیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی ٹیکنالوجی کا ایسا انقلاب آیا کہ انسان کو ہر آسائش میسر آگئی اب کسی کو برگد کے درخت کی ٹھنڈی چھاؤں کی ضرورت رہی اور نہ تالاب جیسے کھلے صاف و شفاف پانی کی ضرورت رہی جس کی وجہ سے تالاب خشک ہوکر گندگی کے ڈھیروں اور کچرا کنڈیوں میں تبدیل ہو کررہ گئے ہیں چند تو قبضہ مافیا کے ہتھوں چڑھ گئے ہیں جنھوں نے ان کا نشان تک ختم کردیا اب برگد کے درخت اور تالاب ماضی کا حصہ بن چکے ہیں

ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہوگااس پر بھی غور وفکر کرنا ہوگا کہ برگد کا درخت پنجاب بالخصوص پوٹھوہار کی پہچان تصور کیا جاتا ہے لیکن ہماری عدم توجہی کی وجہ سے یہ درخت بھی اپنی زندگی پوری کئے بغیر معدوم ہوتا جارہا ہے کسی بھی علاقہ میں برگد کے نئے درخت لگانے اور اگانے کی علامتیں نہیں مل رہی ہیں۔

گھر کے بڑوں نے بھی بچوں کو درختوں کی اہمیت و افادیت کے بارے آگاہی دینا چھوڑ دی ہے جس رفتار سے درختوں کی کٹائی ہورہی ہے اس روٹین سے اگائے نہیں جارہے ۔ حکومتی سطح پر سال میں دو مرتبہ شجرکاری مہم کا آغاز تو ہوتا ہے ہزاروں ولاکھوں نئے پودے لگائے جاتے ہیں لیکن یہ سب کچھ فوٹو سیشن تک محددو یا پھر ادارے اور تنظیمیں اپنی رپورٹس مرتب کرنے کے لیے سب کچھ کرتی ہیں۔

نئے لگائے جانے والے پودوں کی حفاظت اور دیکھ بھال کے لیے کوئی کماحقہ بندوبست نہ ہونے سے نصف سے زائد پودے تو اگتے ہی نہیں ہیں ان میں سے ہریالی اپنانے والے بیشتر پالتو جانوروں کی خوراک بن جاتے ہیں باقی رہنے والے گرمیوں کے موسم میں پانی کی کمی کی وجہ سے خشک ہوجاتے ہیں اگر چند ایک پودے درخت بننا شروع ہوتے ہیں کہ چند ناسمجھ لوگوں کے ہاتھوں سے لگی آگ کی زد میں آکر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجاتے ہیں۔

پانچ سات فیصد پودے ہی تنا آور درخت کی شکل اختیار کرتے ہیں آج پوٹھوہار پیپل برگد اور دیگر قد آور درختوں کے خاتمہ سے رنگ برنگی پرندوں سے محروم ،ماحول آلودہ اور گرمی کی شدت میں آئے روز اضافہ کا شکار ہوتا جارہا ہے درخت زندگی ہے اس کو اگانے سے تناور درخت بنانے تک ہماری ملی‘ اخلاقی اور قومی ذمہ داری ہے آج دور کی جدید سہولیات اور آسائشوں کی بناء پر ہمارے بچے اور آنے والی نسلیں اپنے اباواجداد کے شاندار اور خوبصورت ماضی سے تو مستفید نہیں ہوسکتیں لیکن یہ بات اظہر من الشمں کی طرح عیاں ہے درختوں ہی سے انسان و حیوان چرند‘پرند کی بقاء زمین کی خوشی حالی اور مٹی کی خوبصورتی قائم ہے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں