ہمارا ملک پاکستان معاشی اور اقتصادی طور پر بہت مشکل میں ہے حالت یہ ہے کہ مہنگائی آسمان کو چھور ہی ہے غربت بڑھتی چلی جا رہی ہے
جن عوام کا نام لے کر سب کچھ کر نے کا دعوے کئے جاتے ہیں وہ خود کشیوں پر مجبور کر دئیے گئے ہیں اور اپنے ہاتھوں سے اپنے جگر گوشوں کو موت کی نیند سلا رہے ہیں
اور ہم ہیں کہ اپنے سیاسی بدلے لینے کی فکر میں مبتلا ہیں کسی کو فکر نہیں کہ ملک پر قرضوں کا پہاڑ سوار ہو گیا ہے کہ اب سود کی ادائیگی کیلئے ترقیاتی فنڈز کی قربانی دنیا پڑ رہی ہے
لوٹ مار کا یہ عالم ہے کہ آئی پی پیز کے کھاتے میں اربوں روپے ادا کئے گئے اور مسلسل کئے جا رہے ہیں اس سلسلے میں یہ ہماری بد قسمتی سمجھئے کہ جو پاکستانی سر مایہ دار اسکے مالک ہیں وہ لوٹ مار کا زیادہ حصہ حاصل کر رہے ہیں اور بازوؤں میں سر دے کر خاموشی اختیار کئے ہوئے
ہی حالانکہ جب الوطنی کا تقاضاتو یہ ہے وہ اپنی لاگت سے کئی گنا یعنی بے حساب منافع کما چکے ہیں اسی طرح ملک کی اشرافیہ اور سیاستدان عوام ہی سے قربانی کی طلبگار ہے تنخواہ دار طبقے پر بوجھ بڑھنے پر کسی کو کوئی پر یشانی نہیں لیکن جس کسی دوسرے شعبے پر لگایا جاتا ہے
یا ٹیکس میں اضافہ کیا جا تا ہے تو وہ ٹیکس دینے سے انکار کر کے احتجاج کا راستہ اختیار کر لیتا ہے اس ملک کے دولت مند طبقے کو کچھ فکر ہے تو اپنے اثاثوں کی فکر ہے بڑے صنعتکار اور تاجروں کا حال یہ ہے کہ ہر روز سرمائے کی منتقلی کی دھمکی دینے اور خود پر عائد ٹیکسوں کی بات کر تے ہیں
حالانکہ یہ بہت بڑی حقیقت ہے کہ ہمارے سرمایہ داروں اور نود ولتیوؤں نے ابتداہی سے سرمایہ باہر منتقل کر نے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے حتی کہ بنگلہ دیش کے حالات سے پریشان ہونے والے ہمارے محترم ایسے بھی ہیں جن کو وہاں منتقل کر نے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے بنگلہ دیش کا ذکر آیا
تو اپنے سیاستدانوں کی ذہنی کجروی پر بھی دکھ ہوا کہ وہاں کے حالات کا حقیقی اور معروضی تجزیہ کر کے اپنے حالات کو سد ھارنے کی طرف قدم بڑھانے کے بجائے ہم حسینہ واجد کے انجام کا ذکر کرنے لگے ہیں
اور یہ بھول گئے کہ ہمارے معروضی حالات بالکل مختلف ہیں ہمارے عوامی انقلاب کی بات کرنے والے سب اقتدار کے بھوکے ہیں اور اس مقصد کے لئے اس طاقت سے رجوع کر نے کے لئے پینترے بدل رہے ہیں جسے گالیاں دیتے تھے جہاں تک ہمارے ملک کے سرمایہ داروں کا تعلق ہے کہا جاتا تھا ان کا تعلق زراعت سے تھا ان میں سے بھی اکثر بنیاء لوگوں کے مقروض تھے یہ تو اسمبلیوں کی بدولت اور محترم فیلڈ مار شل ایوب خان کی محنت سے بائیس خاندان بنے ان میں نمایاں کندھا والے تھے لیکن اب حالت یہ ہے
کہ ملک میں بائیس خاندانوں سے بڑھ کر بائیس سو خاندان بن گئے اس کے لئے کسی ریسرچ سکالر کی ضرورت ہے جو یہ تحقیق کرے کہ یہ کیسے اور کس کی لوٹ مار سے ہوا اور لکھ پتی سے کر وڑ پتی اور کروڑ پتی سے ارب پتی اور ارب پتی سے کھرب پتی بننے کی دوڑ شروع ہوئی اور جاری ہے
یہ نو دولتیا طبقہ ہی ہے جو سرمایہ ہی نہیں اپنی صنعت بھی باہر منتقل کر چکا ہے اور کرتا جا رہا ہے گالیاں عوام اور حکومت کو دیتا ہے خیرات گھر سے ہی شروع کریں اور اگر اس ملک سے ہی حاصل کر کے قربانی بھی دیں تو یہ حضرات مل کر چاہیں تو قرضوں سے نجات مل سکتی ہے
شیخ حسینہ واجد بے اپنے سولہ سالہ دور حکمرانی میں نہ صرف اپنے ہاتھ مضبوط کئے بلکہ تمام اہم عہدوں پر اپنے وفادار افراد کا تقرر کر کے خود کو محفوظ کر لیا تھا لیکن جب ظلم حد سے بڑھ جاتا ہے تو وہ مٹ جا تا ہے شیخ حسینہ واجد نے جو چاہا وہی کیا انتظامیہ کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیشی عدالتیں بھی اسکے
اشاروں پر نا حتی رہیں جو بھی انکے سامنے کھڑا ہونے کی غلطی کر تا اسے منظرسے ہٹا دیا جاتا کو ٹہ سسٹم کیخلاف جب بنگلہ دیش میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے تو پولیس کی فائرنگ سے چار سو سے زائد افراد شہید ہوگئے ان شہادتوں کے بعد عوام اور طبقہ کا غصہ عروج پر پہنچ گیا اور بات یہاں تک پہنچ گئی کہ حسینہ واجد نے مظاہرین کو دہشتگردکہہ ڈالا جبکہ آرمی چیف کی جانب سے یہ مثبت بیان آیا کہ میں حکومت کے بجائے اپنے عوام کیساتھ ہوں اس طرح حسینہ واجد نہ چاہتے ہوئے بھی بھارت فرار ہو گئی
اور بنگلہ دیش میں نو بل انعا م یا فتہ ڈاکٹر محمد یونس کی قیادت ہیں عبوری حکومت قائم کر دی گئی اب اس کے بعد امید کی جا سکتی ہے کہ بنگلہ دیش عوام ذہنی طور پر پاکستان کے قریب آئیں گے اور بنگلہ دیش ایک بار پھر مشرقی پاکستان بنے گا
اور مغربی پاکستان کے ساتھ کنفڈریشن قائم ہو جائے گی پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے اسکی حمایت اور دفاعی چھتری مشرقی پاکستانی حکومت اور عوام کو بھارت کی ہندو سے بخوبی تحفظ فراہم کر سکتی ہے فطرت کا قانون انسانی سوچ اور فہم سے بالاتر ہے پھر قدرت نے کر ہ ارض اور اس دنیا میں انسان کو اختیار ودیعت کیا ہے اسے طاقت دولت بادشاہت جان وجلال میں آزماتا ہے لیکن انسان با اختیار تو ہے
مگر مطلق العنان آزاد ہر گز نہیں تاریخ گواہ ہے کہ جب با اختیار صاحب ثروت اور فوجی سپہ سالار اپنے اختیارات سے تجاوز کر جاتے ہیں اور ان کے مظالم من مایوں اور ستم ظریفیوں کی مہلت ختم ہو جاتا ہے تو اُن کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے کچھ ملکوں میں کچھ دیا رغیر اور کچھ جیل میں نشان عبرت بن جاتے ہیں
مصر کے حسن مبارک پاکستان کے پرویزمشرف وغیرہ مطلق العنان فوجی آمر صدر اس کی واضح مثالیں ہیں جس میں اب بنگلہ دیش کی جمہوری اسلامی کے قائد ین علما ے پر مظالم کے پہاڑ تو ڑے ان کو چن چن کر بے گنا ہ پھانسیوں پر لٹکا کر بھارت کی ہندو مودی سرکار اور ان کے ہمنواؤں کو خوش کر دیا
حسینہ واجد جیسی غاصب اور بے حسن وزیراعظم بنگلہ دیش کے عوام طلبا ء کو کیڑے مکوڑوں سے زیادہ نہیں سمجھتی تھی خصوصا جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے قائد ین بزرگاں اور علماء کو اس لئے بطور خاص نشانہ بنایا کہ 1971کی پاک بھارت جنگ میں افواج پاکستانی کا ساتھ دیا تھا
پاکستان کو ٹوٹنے دولخت ہونے سے بچانے کے لئے جماعت اسلامی کے البدر اور الشمس کے ہزاروں کا رکنوں اور قائدین نے جانی قربانیاں دی تھیں دستو رپاکستان اسلامی اصولوں کا آئینہ دار ہے
اور پوری قوم اور امت امت مسلمہ کی بہتری اور آفاقیت کا درس دیتا ہے یہی اسلامی تعلیمات کا پیغام ہے ہم قوم پر ستی پر نہیں بلکہ انسانیت کے بقائے باہمی پر یقین رکھتے ہیں۔