بم لاری اگ ڈرائیور،پکا ٹائم ماضی کا حصہ بن گئے 218

بم لاری اگ ڈرائیور،پکا ٹائم ماضی کا حصہ بن گئے

ثقافت اور تہذیب وتمدن کو معاشرے میں کلیدی حیثیت حاصل ہے قدریں تہذیب سے بنتی ہیں اور تمدن سے معاشرہ کا وجود قائم رہتا ہے علاقہ جاتی ثقافتوں کو اسی پیرائے میں رکھنا ہمارے اسلاف اور اکابرین کا طریقہ ہے جس کو ایک نہایت مستند حوالہ و مثال سے واضح کرتا چلوں برصغیر پاک وہند کی تہذیب موسیقی سے ماخوذ ہے اور ہمارے برصغیر پاک و ہند میں کسی نہ کسی صورت میں صدیوں سے موجود اور موجزن بھی ہے اوائل تبلیغ اسلام میں تلوار کے علاوہ جب دلیل اور منطق سے اسلام کی تبلیغ شروع کی گئی تو کافی مشکلات کا سامنا ہوا جس کے بعد ایک شخصیت جس کو برصغیر پاک و ہند میں اسلام کے حوالے سے ایک حوالہ جانا اور مانا جاتا ہے جن کا ذکر نہ کیا جائے تو برصغیر میں اسلام کی تاریخ نامکمل رہ جائے گی شیخ الشیوخ شیخ الاسلام حضرت سید معین الدین چشتی اجمیری ؒ کا نام نامی ہے جنہوں نے یہاں کی ثقافت کو تبلیغ اسلام کے لیے استعمال کیا اور قوالی کی بنیاد رکھی اور غیر مسلم لوگوں کو راہِ ہدایت پر لیکر آئے قوالی سے اسلام کا سفر اتنا آسان ہوا کہ جس کو تبلیغ سے صدیوں میں حاصل کرنا تھا وہ چند سال میں ممکن ہوگیا چونکہ علاقائی زبان ہونے کے ساتھ موسیقی ان کی ثقافت بھی تھی اور قوالی کا اثر اس انداز سے ہوا کہ آج صدیاں گزر جانے کے بعد بھی اپنی آب و تاب سے چشتیوں کا یہ بلا تمیز و تفریق نسل و قوم کروڑوں تشنگانِ علم و ادب اور داعیان اسلام کو اپنے حصار میں جکڑے ہوئے ہے اس مثال سے واضح اور ثابت ہوتا ہے کہ ثقافت تہذیب کیلئے لازم و ملزوم ہے چاہے وہ علاقائی زبان ہو روحانیت ہو قومی و ملی جذبات سے جڑے ہوئے رشتے ہوں اسی ضمن میں ہمارے ہاں علم و ادب کے علاوہ ہماری ثقافت مرغ بازی سے بٹیر بازی تک ہے جبکہ کبڈی سے والی بال تک شوقیہ مویشی پالنے سے ہل جوتنے تک بکریاں پالنے سے ان کے مقابلے کرانے تک گاڑیوں سے کپڑوں کی سلائی تک چپل سے ٹوپیوں اور پوٹھوہاری”پرنوں ” چادروں تک ریل گاڑی کے ڈیزائن بنانے سے سوزوکی بولان اور کیری ڈبوں کو تیار کروانے تک ٹرکوں کو انواع و اقسام کی لائٹوں سے سجانے سے لیکر فورڈ ویگنوں کی تزئین و آرائش تک بسوں کے ہارن تک ہماری اجتماعی ثقافت ہے جو آج کے تیز ترین دور میں بھی کسی نہ کسی صورت میں صدیوں سے موجود آج بھی موجود ہے چونکہ علاقائی طور پر میں پوٹھوہاری ہوں اور چھوٹے ٹیلوں کی سرزمین کا رہائشی ہوں مجھے بھی اپنی علاقائی زبان اور ثقافت سے بے حد لگاؤ ہے جس کی وجہ سے آج ایک تحریر آپ قارئین کے لیے بطور امانت پیش کر رہا ہوں کہ یہ رہتی دنیا تک ہماری اجتماعی زمہ داری ہے کہ یہ ثقافت چاہے تاریخ کے پنوں میں ہی پہنچے لیکن پہنچے ضرور تو ملاحظہ فرمائیں آج کی تحریر ”بسیں ” میں دکھالی راجگان کہوٹہ کا رہائشی ہوں اور لکھاری ہوں کافی دنوں سے اپنی معدوم ہوتی ایک ثقافت ایک ورثہ کے بارے میں لکھنے کے لیے بس کی تصویر ڈھونڈ رہا تھا کہ ملے تو کچھ عرض کروں آج صبح کھڈیوٹ کے ایک جوان کے ہاتھ سے بنائی گئی یہ بس پسند آئی اور طبیعت کا میلان ہوا تو سوچا کہ اپنی روایتوں کی امین اس ثقافت کو خراج تحسین پیش کروں جب سے ہم نے ”سرت سنبھالی” یعنی ہوش سنبھالا ہم نے دیکھا کہ ہمارے علاقے میں بسیں ہی چلتی ہیں اب تو زمانہ کافی حد تک آگے بڑھ گیا ہے اور بسیں پیچھے رہتی جارہی ہیں کبھی ان کا عروج تھا لوگ بروقت اپنے اڈہ (سٹاپ) پر پہنچتے تھے کہ وقت مقرر ہوا کرتا تھا چاہے عام حالات ہوں بارش ہو طوفان ہو خوشی ہو غمی ہو بس نے اپنے وقت پر نکل جانا ہے دوسری بس آدھا گھنٹہ کے وقفہ سے آتی تھی ہم نے مڈل تک تعلیم اپنے گاؤں میں گورنمنٹ ہائی سکول دکھالی راجگان (جو اس وقت مڈل تھا) حاصل کی ہمارے اساتذہ کی زیادہ تعداد کہوٹہ اور چوکپنڈوری سے بذریعہ بس ہی تشریف لاتی تھی جن میں انتہائی نفیس اساتذہ شامل تھے مثلاً ہیڈماسٹر شاہین‘ ماسٹر ایوب‘ ماسٹر زاہد‘ ماسٹر سلطان‘ ماسٹر رؤف‘ ماسٹر بشیر و دیگر ان بسوں کی افادیت کا اندازہ اس سے کیجیے کہ اگر اس زمانے میں مناسب سواری نہ ملتی تو ہمیں ایسے نابغہ روزگار اساتذہ نہ ملتے اور ہمارے پسماندہ علاقے میں تعلیم حاصل کرنا انتہائی مشکل ہو جاتا بہرحال ہم نے مڈل پاس کیا اس کے بعد ہمارا بسوں کا سفر شروع ہوا اس وقت کی مشہور بسیں 173/ 192/2851/ 2367/1056/ 2367/ 830/7215/1777 وغیرہ تھیں اور مشہور ڈرائیور بڑا کالا استاد‘پہائی استاد‘رشید استاد‘حمید استاد‘ نواز استاد‘لوچی استاد‘غفار استاد‘محبت استاد‘تھومی استاد‘ مان استاد‘آمین استاد،جبار استاد‘ شاقو استاد‘نکہ کالا اور راشد ڈرائیور اور ان سب کی قدریں مشترک تھیں استری کیے ہوئے کپڑے نیچے چمکتی ہوئی کھیڑی(چپل) بال تیل سے گچا گچ موچھیں تاؤ دی ہوئیں یعنی کہ مکمل رعب دار اور اکثریت میں ڈرائیور ایمان و غیرت کی اعلی مثال ہوا کرتے تھے نائیک حضرات میں سب سے مشہور ہستی ماما صدیق مرحوم، کنویز اختر عرف کالا، ملک برکت، ملک شفاقت،چاچا حنیف مرحوم، چاچا رؤف، راجہ دلشاد، نائیک ازرم، لالہ محبت، نائیک شفیق و راجہ ظہور برادران،نائیک جہانگیر،راجہ بشیر، راجہ حمید برادران کرپال، ملک رزاق، نائیک محمد عرف ممدو ترکھیاں والے ان کے علاوہ بھی تھے جو ذہن کے نہاں خانوں میں کہیں گم ہوگئے ہیں بہرحال ہم نے وہ عہد پایا جو آج کے جوانوں کو نصیب نہیں ہوا کلرسیداں کی بھی تحصیل کہوٹہ ہوا کرتی تھی اس لیے روٹ کہوٹہ سے کلرسیداں گراؤنڈ تک ہوا کرتا تھا اور پہلے دوتین ٹائم (بسیں) کھڈ بناہل‘ دوبیرن‘چوآ خالصہ‘سرصوبہ شاہ، سموٹ‘ کاہلیاں ساہلیاں و طوطہ‘کنڈ‘ بھلاکھر‘ ممیام اور کلرسیداں کی عوام سے بھری آتی تھیں کئی بار چوکپنڈوری اور بھکڑال‘تھوہا اور بھورہ حیال وغیرہ، چنام، کرپال، دکھالی راجگان، (لونہ، گگھڑ ادمال،گاڑ، ڈھیری مادھو تک سب کا سٹاپ دکھالی راجگان تھا) ساعی کوٹ، نوگراں اور بٹوہا والے کھڑے ہوئے یا لٹکے ہوئے ہی جاتے تھے ایک ہاتھ ایک پاؤں پر(راقم نے خود کئی بار ایسے سفر کیا) اس لیے بزرگوں اور مستورات کو پچھلی گاڑی کا انتظار کرنا پڑتا تھا اتنا رش ہوا کرتا تھا صبح و شام کے اوقات چھوڑ کر بعد میں آنے والی گاڑیوں (بشمول انکے بھی) نے اپنے اصول وضع کیے ہوئے تھے کہ اگلی چار سیٹیں دونوں اطراف کی خواتین کے لیے مختص تھیں اس کے بعد مرد حضرات اگر کوئی جوان سیٹ پر بیٹھ بھی گیا تو بزرگوں کے آتے ہی اس نے اسی وقت اپنی نشست چھوڑ دینی اور بزرگوں کو احتراماً جگہ دینی روایت تھی جبکہ لڑکوں کا بہترین مشغلہ اور مقام چھت تھا جہاں پر وہ اطمینان محسوس کرتے تھے ڈرائیور حضرات سڑکوں کے انتہائی ناگفتہ بہ حالات ہونے کے باوجود جب عازم سفر ہوتے تو اللہ تعالیٰ اور نبی اکرم ﷺ کو یاد کرکے گاڑی اسٹارٹ کرتے اور گاڑی چلتے ہی جیسے انکے فرائض میں شامل ہو کہ گاڑی میں ٹیپ لگانا نہ بھولتے اور ہر سٹاپ سے دو کلومیٹر پہلے ہی رنگ برنگی آوازوں والے ہارن بجا کر اپنی سواریوں کو ہائی الرٹ کرنا چونکہ وہ وقت ٹیپ اور ریڈیو کے عروج کا وقت تھا صبح نعت اور قوالی (کئی بار تو غزل کو بھی قوالی ہی سمجھا جاتا تھا چونکہ استاد نصرت فتح علی خان صاحب اور عزیز میاں قوال نے قوالی کی طرز پر غزل گائی ہے) اس کے بعد عطا اللہ عیسیٰ خیلوی کا دور شروع ہوتا اور وہ شام آخری پھیرے تک جاری وساری رہتا لیکن کچھ پکے سروں کو سننے والے استاد لوگ لتا منگیشکر، میڈم نور جہاں، غلام علی، مہدی حسن، مکیش اور سہگل تک کو بھی سنتے تھے آپ ذرا تصور کیجئے کہ بس کچھا کھچ بھری ہوئی ہے اگلا پچھلا گیٹ، شیشوں کے ساتھ ڈنڈوں تک اور چھت سیڑھیاں سب بھرے ہوئے ہوں اس میں تیز میوزک ڈرائیور کی ذمہ داری بڑے بڑے موڑ، اترائیاں اور چڑھائیاں ان میں سے مسافروں کو اپنی منزل مقصود تک بخیر و عافیت پہنچانا کتنی ہمت کا کام ہے ہرچند ڈرائیور حضرات لائق تحسین ہیں اسی دورانیے میں جمعرات کو سب راستے سب قافلے یعنی بسیں اپنا رخ ولی کامل حضرت بابا غلام بادشاہ ؒ کے مزار شریف نوتھیہ کی طرف کرلیتے روٹ بدل جاتا گانے بدل جاتے سواریوں کی ترتیب بدل جاتی اور کنڈیکٹر آواز بلند کہتا سنا جاتا کہ مستورات (عورتیں) گاڑی کی سیٹوں پر بیٹھیں گی مرد حضرات چھت پر ہو جائیں اور مرد بھلے مانس بھی حکم کی تعمیل کرتے ہوئے چھت پر تشریف فرما ہو جاتے (سادے) مڈل کے بعد ہم ہائی سکول بھکڑال اور ہمارے اکثر دوست ہائی سکول کہوٹہ داخل ہو گئے بسیں آتیں سردی ہو یا شدید گرمی ہو ہمیں چھت پر تشریف رکھنی پڑتی چونکہ ہم کرایہ وغیرہ بھی کم ہی دیا کرتے تھے اور اگر دیتے بھی تو سٹوڈنٹس والی دھونس ضرور جمایا کرتے اور زیادہ تر کنڈیکٹر ہمارا لحاظ کیا کرتے تھے چونکہ ہم کہوٹہ سے چوکپنڈوری، کلرسیداں روٹ کے مرکزی لوگ تھے اس لیے بھی بہرحال اب تو نہ وہ زمانہ رہا نہ وہ بسیں رہیں نہ وہ ڈرائیور حضرات نہ وہ کنڈیکٹر رہے نہ ویسی سواریاں رہیں اس کی ایک وجہ کلرسیداں کا تحصیل بننا اور بسوں کا روٹ مکمل نہ کرنا بھی ہے ویسے سواریاں تو اب اپنے موٹر سائیکل پر یا چھوٹی گاڑیوں پر چلی جاتی ہیں اور جو بسیں ابھی بھی چل رہی ہیں وہ حضرات پھیرے لگا کر اپنا تھوڑا بہت گزارا کرتے کیونکہ پہلے روڈ اچھی نہ ہونے کے باوجود گاڑیاں پرانی ہونے کے باوجود گاڑیاں وقت پر مسافروں کو منزل مقصود پر پہنچاتی تھیں اب روڈ اچھا ہے گاڑیاں بھی تقریباً نئی اور اچھی کنڈیشنز میں ہیں لیکن اب بالکل ایسا نہیں ہے کہ مسافروں کو منزل مقصود پر بروقت پہنچایا جائے پہلے وقت آدھا گھنٹہ تھا جو اب بڑھتے بڑھتے ایک گھنٹے سے دو گھنٹے تک بڑھ گیا ہے جس وجہ سے بھی سواری کا رجحان بسوں سے ہٹ گیا ہے بہرحال اللہ تعالیٰ ہماری اس ثقافت کو قائم رکھے بین السطور جتنے احباب گرامی کا ذکر خیر ہوا اگر فوت ہو گئے ہیں تو اللہ پاک انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام نصیب فرمائے اور جو زندہ ہیں اللہ تعالیٰ انہیں صحت مند زندگی عطا فرمائے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں