233

بلدیاتی حلقہ بندیوں میں زمینی حقائق کو مدنظر رکھا جائے

چوہدری اشفاق/الیکشن کمیشن نے ملک بھر میں نئی بلدیاتی حلقہ بندیاں مکمل کر لی ہیں اگر پنجاب حکومت کی طرف سے کوئی نئی رکاوٹ کھڑی نہ کی گئی تو ان کی فہرستیں 4 اکتوبر کو مختلف ڈسپلے سنٹر پر عوامی معائنے کیلیئے آویزاں کی جائیں گی اس کے بعد ان پر اعتراضات سنے جائیں گئے نئی حلقہ بندیوں میں یو سیز ختم کر کے ویلج کونسلز تشکیل دی گئی ہیں جو پٹوار سرکل کے حساب سے ترتیب دی گئی ہیں عوام کیلیئے یہ حلقہ بندیاں ایک نیا تجربہ بن کر سامنے آ رہی ہیں الیکشن کمیشن نے نئی حلقہ بندیوں کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو ایسے طریقوں سے بلدیاتی حلقوں کو قائم کیا جائے جس سے عوام کی مشکلات میں کمی ممکن ہو سکے ہرویلیج کونسل کے جغرافیائی پس منظر کو سامنے رکھا جائے اور اس میں صرف وہ موضع جات شامل کیئے جائیں جو اس کی حدود میں واقع ہوں نہ کے ایسے بے تکے موضعے شامل کر دیئے جائیں جن کا اس ویلیج کونسل سے کوئی تعلق ہی نہ ہواور یہ کوشش کی جائے کہ ویلیج کونسل میں موضع جات کو شامل کرتے وقت اس بات کا پورا پورا خیال رکھا جائے کہ اس کے آس پاس چاروں طرف سے علاقے شامل کیئے جائیں تا کہ متعلقہ ویلیج کونسل میں آنے والے عوام کو ہر طرف سے فاصلہ برابر ہو اور دفتر بھی ان سے دشوار گزار فاصلے پر واقع نہ ہو اب تحصیل کلرسیداں اور پورے حلقہ این اے 57 کو ہی سامنے رکھ کر بات کی جائے تو گزشتہ عام انتخابات سے قبل جو حلقہ بندیاں بنائی گئی ہیں ان کی وجہ سے تحصیل کلرسیداں کو بلکل تروڑ کر رکھ دیا گیا ہے اور ایک چھوٹی سی تحصیل جو صرف گیارہ یو سیز پر مشتمل تھی اس کو قومی اسمبلی کے دو حلقوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے جو کہ سمجھ سے بالا تر ہے ایک چھوٹی سی تحصیل کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دینا عوامی مفاد میں نہیں بلکہ سیاسی مفادات کے تحت ہی کیا گیا ہے ان گیارہ یو سیز کے عوام الگ الگ کر دیئے گئے ہیں اور خاص طور پر حلقہ این اے 57کو اس قدر بے تکہ تقسیم کیا گیا ہے کہ آْج تک اس بات کی سمجھ ہی نہیں آرہی ہے کہ ایسا کس کے مفاد میں کیا گیا ہے اور کونسے سے مفادات حاصل کیئے گئے ہیں اور کس نے حاصل کیئے ہیں تحصیل مر ی،کوٹلی ستیاں اور کہوٹہ کو تحصیل کلرسیداں کے بلکل مساوی ہیں ان کو سرے سے چھیڑا ہی نہیں گیا ہے اور وہ پہلے کی طرح قائم و دائم ہیں اور کلرسیداں کو ٹکڑوں میں تقسیم کر کے رکھ دیا گیا ہے یہ حلقہ بندیاں بلکل بد نیتی پر مبنی تھیں بلکل اسی طرح آخری بلدیاتی حلقہ بندیوں کی بات کی جائے تو تحصیل کلرسیداں کی یو سی غزن آباد کی صورتحال بھی بلکل ویسی ہی ہے اس میں بھی ایسے علاقے شامل کر دیئے گئے ہیں جہاں کے عوام کو دفتر یو سی تک پہنچنے کیلئے پورے دن کا سفر طے کرنا پڑتا ہے اور یو سی کا دفتر ایسی جگہ پر واقع ہے جہاں اس کے آس پاس کا کوئی بھی علاقہ اس میں شامل نہیں ہے اس کے چاروں طرف یو سی گف کے علاقے واقع ہیں ایسی حلقہ بندیاں سیاسی مفادات ہی کہلاتی ہیں اب چونکہ نئی حلقہ بندیوں کا کام مکمل ہو چکا ہے الیکشن کمشن کو اعتراضات کیلیئے زیادہ سے زیادہ وقت رکھنا چاہیئے تا کہ ایسی حلقہ بندیاں جو عوامی مفاد میں نہ ہوں ان کو ختم کر کے متعلقہ اعتراض کو دور کر کے نئے سرے سے ترتیب دیا جائے موجودہ صورتحال میں الیکشن کمیشن بڑے دلیرانہ فیصلے بھی کر رہا ہے تو نئی حلقہ بندیوں کے دوران بھی وہ اپنا بھر پور کردار ادا کرے اس دوران کسی بھی قسم کی سیاسی مداخلت نہ ہونے دی جائے اس بار الیکشن کمیشن کو یہ بات ثابت کرنے کا بہترین موقع مل رہا ہے کہ سیاست سے پاک حلقہ بندیاں کیسی ہوتی ہیں اور ان حلقہ بندیوں کے دوران تمام معاملات صرف محکمہ مال کے ہی رحم و کرم پر نہ چھوڑے جائیں بلک ایسی ٹیمیں تشکیل دی جائیں جو اعتراض شدہ حلقہ بندیوں کی حدود میں میں خود جا کر اس بات کا جائزہ لیں کہ جو اعتراض اٹھایا گیا ہے اس کے جغرافیائی حالات کیسے ہیں اس کو مد نظر رکھ کر اعتراض پر فیصلہ کیا جائے اس کے بعد مذکورہ حلقہ بندیاں عوامی مفاد میں تصور ہوں گی۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں