92

بلدیاتی انتخابات / راجہ غلام قنبر

بالاخر پنجاب اور سند ھ میں بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ عدالتی حکم پر مکمل ہو ہی گیا۔سندھ میں بالترتیب ایک جانب(شمال و شمال مشرقی سندھ)سے بلدیاتی انتخابات شروع کروائے گئے جبکہ پنجاب کے مختلف ڈویژنز کے منتخب بارہ اضلاع میں انتخابات ہوئے۔اس لئے پنجاب کے حوالے سے یہ رائے بھی عام ہے کہ وہاں مضبوط حکومتی اضلاع میں انتخابات پہلے مرحلے میں کروائے گئے کہ جن کے نتائج توقع سے بھی زیادہ مسلم لیگ ن کے حق میں آئے ہیں۔مسلم لیگ ن اس نفسیاتی برتری کو آنیوالے دو مراحل کے لئے استعمال کرے گی۔ان انتخابات میں مسلم لیگ ن پنجاب کے گروہ بندی کھل کر سامنے آئی ۔گروہ بندی کے حوالے سے سب سے زیادہ ریٹنگ فیصل آباد کی رہی۔فیصل آباد میں چوہدری شیر علی اور رانا ثناء اللہ کے بیچ گھمسان کا رن پڑا۔نتائج کے بعد دونوں لیگی دھڑے اپنی اپنی کامیابی کا اعلان کر رہے ہیں۔دلچسپ بات یہ کہ دونوں دھڑوں کے متوقع امیدواران برائے میئر اپنی اپنی نشست نہ جیت سکے۔البتہ پنجاب میں مجموعی طور پر مسلم لیگ ن پینتالیس فیصد نشستیں جیت کر پہلے نمبر پرہے۔دوسرے نمبر پر آزاد امیدوار رہے جنہوں نے قریب چالیس فیصد نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔پنجاب میں سب سے زیادہ مایوس کن نتائج پاکستان تحریک انصاف کے لئے ثابت ہوئے کہ جس نے گیارہ فیصد نشستیں لیں۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے غبارہ سے ہوا نکل چکی ہے۔جس کو ثابت کرنے کے لئے پہلے مرحلے کے پنجاب کے مایوس کن نتائج کی مثال دی جاتی ہے۔پنجاب کیساتھ ساتھ سند ھ کے آٹھ اضلاع میں بھی بلدیات کا پہلہ مرحلہ ہوا۔ جس میں پاکستان پیپلز پارٹی نے ستر فیصد سے زیادہ نشستیں لے کر واضع برتری حاصل کی۔ان نتائج پر ان تجزیہ نگاروں کی رائے غلط ثابت ہوئی کہ جو پیپلز پارٹی کو سند ھ میں بھی ’’جاں بالب‘‘ قرار دے رہے تھے۔پیپلز پارٹی نے سند ھ میں دوتہائی سے زائد نشستیں لے کر یہ ثابت کر دیا کہ وہ اب بھی وہاں پر پہلے کی طرح مضبوط ہے۔دوسری بات یہ ثابت ہوئی کہ سند ھ میں پیپلز پارٹی کے اندر کوئی اختلافات نہیں ہیں کہ جن کا سامنا مسلم لیگ ن کو پنجاب میں ہے۔سکھر شہر میں طویل عرصہ کے بعد پیپلزپارٹی نے اپنی بلدیاتی برتری ثابت کی۔فنکشنل لیگ کے علاوہ دیگر اپوزیشن پارٹیوں نے آٹھ اضلاع میں چند ایک نشستوں پر ہی کامیابی حاصل کی۔پہلے مرحلہ میں ڈھائی درجن سے زائد افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔جو کہ قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔آئندہ کے دو مراحل کے لئے قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو مزید ذمہ داری اور چستی سے کام لیتے ہوئے ایسے واقعا ت کا سدباب کر نا ہواگا۔انتظامیہ کے علاوہ امیدواران کابھی حق بنتا ہے کہ وہ اپنی معمولی نشست کے لئے انسانی جانوں کو ایندھن نہ بنائیں۔اپنے حامیوں اور بالخصوص ’’گرگوں‘‘ کو اعتدال میں رکھیں کیونکہ جس گھر کا کفیل چلا جائے اس کے مسائل کا اندازہ لگانا مشکل امر نہیں ہے۔معمولی نشست کے لئے اتنا ظلم! قدرت اس پر یقیناًسخت گرفت کرے گی۔کچھ علاقوں سے یہ خبریں بھی موصول ہوئیں کہ وہاں پر خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکا گیا۔الیکشن کمشن کو چاہیئے کہ ان علاقوں کے نتائج کو کالعدم قرار دے کر دوبارہ انتخابات کروائے اور اس میں خواتین کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے تاکہ خواتین ووٹ ڈالنے کے بنیادی حق سے محروم نہ رہیں۔یاد رہے کہ بلدیات سے ترقی یافتہ قومیں بطریق احسن مستفید ہورہی ہیں لیکن وطن عزیز میں ’’کلے‘‘ کی مضبوطی کے لئے ہمیشہ سیاسی جماعتوں نے بلدیات سے پہلو تہی کی۔اب کے امید رکھنی چاہیئے کہ بلدیات کا سلسلہ تسلسل کے ساتھ جاری رہے گااور انشاء اللہ وطن عزیز کی عوام بھی جہوریت سے مستفید ہوگی۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں