پنجاب اسمبلی میں بلدیاتی نظام کا ترمیمی بل پاس ہونے اور مسودہ پر گورنر کے دستخط ہونے کے بعد بلدیاتی الیکشن کی سرگرمیوں میں تیزی آگئی ہے امیدواروں نے اپنے پینل تشکیل دینے
اور الیکشن میں حصہ لینے کے لیے مشاورت اور اعلان کرنے شروع کردیئے ہیں
ماضی میں اگر بلدیاتی نظام پر غور کیا جائے تو جمہوری حکومتوں کی نسبت ہر فوجی آمر نے بنیادی حکومتوں کے نظام کو فعال کرنے کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے اس کی ایک وجہ اپنے اقتدار کو دوام بخشنا بھی تصور کیا جاتا ہے اور اس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی رہے اور شہریوں کے مسائل بھی ان کے دہلیز پر حل ہونے کے ساتھ ساتھ ترقیاتی کاموں کے دور دورہ ایوب خان اور ضیاالحق کی طرح پرویز مشرف نے بھی اقتدار پر قبضہ کرنے کے دو سال بعد بنیادی حکومتوں کا ایک نظام متعارف کروایا
جس کے تحت 2001ء میں بلدیاتی انتخابات ہوئے جس میں سابقہ دور کے وارڈ سسٹم کے تحت کونسلر و ممبر یوسی منتخب کرانے کے نظام کو ختم کرکے کونسلر ز نائب ناظمین اور ناظمین کو پوری یونین کونسل کے ووٹرز سے ووٹ لیکر منتخب ہونے اور یونین کونسل کے منتخب ناظمین سے ووٹ سے کامیابی حاصل کرنے والے ضلع ناظم کوجملہ اختیارات سونپے گئے چار سالہ بلدیاتی نظام دور کی مدت پوری ہونے کے بعد دوبارہ 2005ء میں بلدیاتی انتخابات کروائے اور ضلعی حکومتوں کے نظام کو پروان چڑھایا لیکن اس کے بعد 2008ء میں جنرل الیکشن کے بعد جموری حکومت کے قیام کے بعد بلدیاتی نظام کے دورہ پور ا ہونے کے بعد دوبارہ الیکشن نہیں کروائے گئے
اس کی بنیادی وجہ سے قومی و صوبائی اسمبلی کے منتخب نمائندوں کی سازش قرار دیا جاتار ہا چونکہ اس کے دور اقتدار میں جملہ اخیتارات ضلعی اسمبلی اور یونین کونسل ممبران کو ملنے کی وجہ سے عوام میں ان کی پذیر ائی میں کمی ہوجاتی ہے حالانکہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ممبران کی ذمہ داریاں گلی محلے کی گلیوں کی پختگی اور تھانہ کچہری کی سیاست کی بجائے آئین سازی کرنا مقصو د ہوتا ہے جس کی وجہ سے جمہوری حکومتیں ہر بار بنیادی حکومتوں کی نظام کو دلی طور پر قبول نہیں کیا ہے
اور اب سپریم کورٹ کے حکم پر آٹھ سال بعد ایک مرتبہ پھر مرکز کی مشاور ت سے صوبائی حکومتوں نے بنیادی بلدیاتی نظام کو ترمیم کے ساتھ نئے سرے لانے کیلئے حتمی شکل دے دی ہے پنجاب نے صوبہ میں غیر جماعتی جبکہ دیگر خیبر پختون خواہ سندھ اور بلوچستان حکومت نے جماعتی بنیادوں پر انتخابات کروانے کا اعلان کیا ہے اسلام آباد اور کنٹونمنٹ کے ایریا میں بھی گزشتہ ایک تقریبا تین دہائیوں سے بلدیاتی الیکشن کا انعقاد نہیں کیا گیا ہے جس کی بنیادی وجہ اسلام آبادکی بیوروکریسی کو قرار دیا جارہے ہے اسلام آباد کے دیہی علاقوں میں عوام کے منتخب نمائندے نہ ہونے کی بناء پر شہریوں کے مسائل میں آئے دن اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے روات جیسے ہزاروں نفوس کی آبادی کے علاقہ بھی مسائل کی دلدل میں پھنستا چلا جارہا ہے شہری پانی جیسی بنیادی سہولت کو بھی ترس رہے ہیں شہری یونین کونسل کے سیکرٹری کے رحم و کرم پرہیں
تاہم ابھی تک صوبائی حکومتوں نے الیکشن شیڈول کا اعلان نہیں کیا ہے لیکن اس کے باوجود بلدیاتی سرگرمیوں شروع ہوگئی ہیں کلرسیداں کی یونین کونسل بشندوٹ میں چئیرمین اور وائس چئیرمین کے پینل کی تشکیل کے بعد زبیر کیانی گروپ نے الیکشن کے مرکزی آفس کا افتتاح بھی کردیا گیا ہے
جس کی وجہ سے دیگریونین کونسلوں سے بھی امیدواروں نے سیاسی گرمیاں شروع کردی ہیں مشرف دور میں ہونیوالے بلدیاتی انتخابات میں ناظم اور نائب ناظم کے الیکشن کے لیے میٹرک کی تعلیم کو لازمی قرار دیا گیا تھا لیکن اب کی بار ہونے والے الیکشن کے چئیرمین اور وائس چئیرمین کے لیے تعلیم کی شرط لاگو نہیں کی گئی ہے جس کی وجہ سے امیدواروں کا ایک سیلاب آمڈآیا ہے جس میں چند ایک ایسے بھی امیدوار پیسے کے بل بوتے پر سامنے آگئے ہیں جن کا عوامی خدمات سے کوئی سروکار نہیں ہے وہ صرف اپنے مفادات کی خاطر ووٹ کو خریدنے کی بھرپور کوشش کرینگے لیکن عوام کو چاہے کہ وہ بنیادی حکومتوں کے نظام کو فعال اورکار امد بنانے کے لیے عوامی خدمت سے سرشار لوگوں کو سامنے کو ووٹ دیکر کامیاب کرنا چاہیے چونکہ ماضی میں بھی دیکھا گیا ہے
کہ علاقہ بااثر افراد نے دھونس دھکمیوں اور مال کے بل بوتے پر الیکشن جیت کر عوام کو مسائل کو یکسر نظر انداز کے اپنی گاڑیوں میں ناظم کونسلرز کی پلیٹیں لگا کر اپنا اثر رسوخ دکھانے کی کوشش کرتے رہے ہیں حکومت کی چاہیے کہ بلدیاتی الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں کی مکمل سکرونٹی کی جائے تاکہ اہل اور دیانتدار قیادت ہی سامنے آکر عوام کے بنیادی مسائل کے حل کے لیے اپنے آواز بلند کرسکیں
عبدالخطیب چوہدری روات03005256781