بلدیاتی ادارے بحا لی کے بعد ایم سی کہوٹہ سمیت دیگر تمام یونین کونسلوں کے چئیرمین حضرات نے اجلاس منعقد کیے اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے مٹھائیاں بھی تقسیم کی چیئرمینوں کا استقبال کیا گیا کاش کہ عدالت بلدیاتی نمائندوں کے حوالے سے سال ڈیڑھ سال پہلے فیصلہ دے دیتی تو کم از کم کچھ نہ کچھ ترقیاتی کام ہو جاتے مسلم لیگ ق کے دور میں جتنی ترقی ہوئی اس کی مثال نہیں ملتی راجہ طارق محمود مرتضیٰ جو کہ اس وقت تحصیل ناظم تھے انہوں نے بے شمار ترقیاتی کام کروائے بلاشبہ راجہ طارق محمود مرتضیٰ کو اس علاقے کی تعمیر و ترقی سے دلچسپی ہے مگر مسلم لیگ کی حکومت کے آتے ہی بلدیاتی ادارے توڑ دیئے گئے کیونکہ منتخب نمائندے اور پنجاب حکومت ایم سی اور ضلعی فنڈز من مرضی سے خرچ کرنا چاہتے ہیں جس کا نقصان یہ ہوا کہ راجہ طارق محمود مرتضیٰ نے جو 22 کروڑ روپے کی واٹر سپلائی منظور کروائی تھی اور وہ ادھوری تھی بعد میں محکمہ ہیلتھ اور ٹھیکیداروں کی ملی بھگت سے یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا جبکہ 8 کروڑ روپے سیوریج کے لیے رکھے گئے تھے جن میں سے کروڑوں روپے پائپوں کے بنانے میں ضائع ہو گئے بعد میں ملی بھگت سے سیوریج کا منصوبہ ختم کر کے گلیاں بنا کر کروڑوں کی کرپشن کی گئی آج تھوڑی سی بارش سے سڑکیں تالاب بن جاتی ہیں جبکہ کہوٹہ کی ہزاروں کی آبادی پانی کی بوند بوند کو ترس رہی ہے دو تین ٹینکیاں اور مین پائپ لائن تو ڈالی گئی مگر ارد گرد کے علاقوں میں پائپ لائن نہ بچھانے کی وجہ سے 80 فیصد علاقہ پانی سے محروم ہے اس کے بعد مسلم لیگ ن نے بلدیاتی الیکشن کرائے تو ابھی دو اڑھائی سال ہوئے تو پی ٹی آئی کی حکومت آئی اور اس نے بلدیاتی ادارے توڑ دیئے تقریباً 15 کروڑ روپے ایم سی میں پڑے تھے جو چئیرمین راجہ ظہور اکبر اور دیگر ممبران خرچ نہ کر سکے اور پی ٹی آئی کے ایم پی اے اور ایم این اے نے کروڑوں روپے من پسند افراد کو دے کر گلیوں پر گلیاں ڈالی اور کرپشن کی اگر یہ کروڑوں روپے شہر کے کسی بڑے منصوبے پر لگا دئیے ہوتے تو آج کہوٹہ شہر میں پانی کا بحران نہ ہوتا پھر بھی تحصیل صدر راجہ خورشید ستی اور جنرل سیکرٹری راجہ الطاف نے کچھ فنڈز محلہ آڑہ اور دیگر علاقوں میں پانی کی مد میں دئیے خیر ابھی بھی 8 کروڑ روپے ایم سی میں پڑے ہیں شہر کی سڑک بائی پاس کے ٹینڈر بھی ہوئے تھے مگر عدالت کی طرف سے حکم نہ ہونے کی وجہ سے وہ رقم بھی خرچ نہ ہو سکی صدر راجہ وحید احمد کی نگرانی میں کہوٹہ development اتھارٹی کے نام سے ایک تنظیم بنائی گئی تھی جس کا مقصد صرف اور صرف سیاست سے بالاتر ہو کر کہوٹہ شہر کی ترقی کرنا تھا مگر بدقسمتی سے وہ بھی اختلافات کا شکار ہو گئی جس کی وجہ سے لوگوں کو پانی ملا ابھی بلدیاتی ادارے بحال ہونے کے بعد ایم سی کا اجلاس ہوا جس کا ایجنڈا تھا کہ گزشتہ دو سالوں کا حساب دیا جائے کہ فنڈز کتنے خرچ ہوئے کہاں لگے کرپشن کتنی ہوئی الفتح گروپ بھی متحرک رہا آصف ربانی قریشی کی قیادت میں انہوں نے شرکت کی اور شہر کی تعمیر و ترقی کے لیے بہترین تجاویز بھی دی مگر بیوروکریسی نے وزیراعظم کو پکڑ کر باندھ دیا تو بلدیاتی نمائندے کس باغ کی مولی ہیں کہ ان سے حساب لیں ان کی موجیں لگی ہوئی ہیں لاکھوں روپے ہضم کبھی سٹریٹ لائٹس کے نام پر کبھی سستا بازار کی مد میں لاکھوں کی کرپشن ہو
رہی ہے کروٹ دیم والوں نے کہوٹہ کلب کے لیے جو رقم 1 کروڑ 37 لاکھ دی تھی وہ بھی کام شروع نہ ہوا خیر بلدیاتی اداروں کا عرصہ تقریباً ڈیرھ دو ماہ رہتا ہے اور اگر عدالت ان کو مزید کچھ وقت دے دیتی ہے تو پھر کچھ کام ہو سکتا ہے بصورت دیگر کہوٹہ شہر میں صرف فوٹو سیشن ہی ہو گا ساتھ ہی ساتھ آمدہ بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے بھی امیدواران منتخب ہوتے جا رہے ہیں اور اب سیاسی جوڑ توڑ اور ایک دوسرے کے ساتھ گروپ بندی کی طرف رابطے بڑھنے شروع ہو چکے ہیں مگر چئیرمین یو سی نڑھ بلال یامین ستی جو کہ جوڑ توڑ میں بھی نہ صرف اپنی برادری میں بھی اثر و رسوخ رکھتے ہیں بلکہ تحصیل میں بھی ان کا اہم کردار ہو گا اور لگتا ہے کہ راجہ خورشید ستی خود بھی الیکشن میں حصہ لیں کیونکہ پی ٹی آئی کی تنظیم نظریاتی ورکرز کارکن منتخب نمائندوں سے نالاں لگ رہے ہیں اور مختلف میٹنگز کا بائیکاٹ بھی کر چکے ہیں جس کی وجہ سے وہ تمام لوگ راجہ خورشید ستی کو الیکشن لڑنے کے لیے مجبور کر رہے ہیں بہرحال ایم سی کے اندر اگر وہ خود نہ بھی لڑے تو ان کا بڑا اہم کردار ہو گا اور اگر الفتح گروپ سے ان کا اتحاد ہو جاتا ہے تو پھر کہوٹہ شہر میں ایک مضبوط گروپ سامنے آئے گا کیونکہ آصف ربانی قریشی کا اپنا بھی ایک ووٹ بینک ہے بہرحال پی ٹی آئی کے امیدواروں کو مہنگائی کے سونامی کی وجہ سے بھی عوام اتنی سپورٹ نہیں کریں گے راجہ وحید احمد جو کہ صدر ہیں اور ان ہی کی وجہ سے راجہ خورشید ستی کو الگ کیا گیا آپ دیکھیں کہ راجہ وحید احمد اس شہر کے لیے اس مختصر عرصے میں کیا کر سکتے ہیں کہ شہری ان کی بھرپور سپورٹ کریں جبکہ اس مرتبہ کہوٹین یوتھ کا بھی کردار ہو گا اگر وہ سیاسی مصلحت کا شکار نہ ہوئے تو بہرحال ابھی تک پی ٹی آئی کی حکومت کے دوران کہوٹہ شہر کی جو حالت ہے وہ سب کے سامنے ہے میرے ناقص تجربے کے مطابق پی ٹی آئی کا گراف بہت نچلی سطح پر آ گیا ہے چند گنے چنے وہ لوگ رہ گئے ہیں جن کے ذاتی مفاد ہیں کیونکہ نہ کوئی حکومتی رٹ نہ روزگار، مہنگائی کا آئے روز طوفان مسائل جوں کے توں اس حال میں زیادہ لوگ آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کو ترجیح دیں گے اللہ کرے کہ اس تحصیل کہوٹہ میں بھی کوئی ایسی قیادت سامنے آئے جو اس علاقے کے مسائل حل کر سکے مسلم لیگ ن بھی گروپ بندی کا شکار ہے ناراض لوگ واپس آنا چاہتے ہیں مگر یا تو راجہ محمد علی کی طرف سے دیر ہے یا مسلم لیگ ن کو مقامی شہری قیادت میں دلچسپی نہیں لیتی۔
