ایک نحیف و کمزور سے شخص کو فوجی کمانڈر کے سامنے پیش کیا گیا اس کمزور شخص نے ایک چاک وچوبند سپاہی کی طرح آفیسر کو سلیوٹ کیا اور کاغذ پر ایک نمبر335139 لکھ کر دیا کیونکہ اس کی زبان کٹی ہوئی تھی اس نے آفیسر کو اشاروں میں کہا میں ڈیوٹی پر حاضر ہوں جناب کیا حکم ہے یہ نحیف و کمزور شخص کوئی اور نہیں سپاہی مقبول حسین تھا جو انیس سو پینسٹھ کی جنگ میں انڈیا کی قید میں چلے گیا تھا لیکن جنگ بندی کے بعد جب قیدیوں کی فہرستوں کا تبادلہ ہوا تو اس میں سپاہی مقبول حسین کا نام کسی جگہ بھی درج نہیں تھا تلاش بسیار کے بعد اسے شہید تصورکرلیا گیا اور یادگار شہداء پر اس کا نام بھی لکھ دیا گیا ہوا یوں کہ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ دشمن کا مورچہ تباہ کرنے کے لئے گئے واپسی پر وہ فائرنگ کی زد میں آ گئے مقبول حسین کی پیٹھ پر وائرس تھا اپنے افسران سے پیغام رسائی کے فرائض کے ساتھ ساتھ ہاتھ میں اٹھائی مشین گن سے دشمن کا مقابلہ بھی کر رہا تھا اور اسی دوران وہ مقابلے میں زخمی ہو کر ایک کھائی میں جا گرا ساتھی اسے تلاش کرتے رہے جب وہ نہ ملا تو وہ آگے بڑھ گے جبکہ وہ آنے والے دشمن کو روکنے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا اور پھر مقبول حسین نے اپنی مشین گن سے دشمن کو مسلسل الجھائے رکھا زخمی حالت میں دشمن نے ان کو گرفتار کر لیا قید کے دوران ان کو ایک انتہائی تنگ و تاریک کوٹھڑی میں بند کردیا گیا روزانہ ان پر طرح طرح کے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے مقبول حسین جواں مردی کے ساتھ ان سب اذیتوں کو برداشت کرتا رہا وہ اسے مارتے اور کہتے پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگاؤ لیکن جوابا سپاہی مقبول حسین ایک ہی جملہ کہتا پاکستان زندہ باد پاکستان زندہ باد جب مار دھاڑ سے سپاہی مقبول حسین کو زچ نہ کر سکے اس کی ہمت کو نہ توڑ سکے تو انہوں نے دوسرا طریقہ اپنایا کہ مقبول حسین کے ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیوں کے ناخن نکالنا شروع کر دیے تاکہ اس سخت اذیت میں کچھ تو سپاہی مقبول حسین بولے گا لیکن سلام ہے اس مرد مجاہد پر جس نے اتنی سخت سزا بھگتی لیکن اس کی زبان سے پاکستان مخالف ایک جملہ نہ نکلا آخر کار دشمن کے حوصلے پست ہو گئے اور اس نے مقبول حسین کی زبان کو کاٹ دیا محبت جب عشق میں بدل جائے تو انسان اس کو نہیں روک سکتا مقبول حسین کی زبان کٹی گئی لیکن پاکستان کی محبت کم نہ ہوئی اب اس نے اپنے خون سے دیوار پر پاکستان زندہ باد لکھنا شروع کر دیا ساتھ ساتھ وہ اپنا نمبر بھی لکھتا تھا تاکہ یاد رہے وقت گزرتے ہوئے محسوس نہ ہوا اسی قیدوبند میں چالیس سال کا عرصہ بیت گیا اچانک ستمبر 2005 میں بھارتی حکومت کی جانب سے کچھ سویلین قیدیوں کا گروپ پاکستان کے حوالے کیا گیا ان میں سے ایک قیدی ایسا تھا جس کی زباں کٹی ہوئی تھی لیکن آنکھوں میں چیتے سی چمک تھی یہ شخص سپاہی مقبول حسین تھا جو کہ اپنے بارے میں کچھ بھی بتانے سے قاصر تھا لہذ ا انہیں بلقیس ایدھی سنٹر بھجوا دیا گیا اور ان کے بارے میں اخباروں میں اشتہار دیے گئے مقبول حسین کی ایک بہن حیات تھیں اور ان کا ایک بیٹا آرمی سے ریٹائرڈ تھا اسے خبر ملی کہ بھارت کی طرف سے آنے والے قیدیوں میں اپنے ماموں کو تلاش کر سکتے ہو بشارت حسین نے تمام عمر اپنی ماں سے مقبول حسین کے بارے ہی سنا تھا اور وہ انکے سچے ہیرو تھے بشارت ایدھی سنٹر پہنچا اور اس نے مقبول حسین کو دیکھا اس کی تصویر اپنی والدہ کو دکھائی اور اسے مختلف علامات اور نشانات سے پہچان لیا گیاعزیز محمد شریف 27 ستمبر 2005 کو انہیں بلقیس ایدھی ہوم سے ان کے آبائی گاؤں ناریاں تراڑ کھل ضلع سدھنوتی آزادکشمیر لے گئے اور پھر ایک انکشاف جو تمام پاکستان
کے لئے کسی معجزے سے کم نہیں تھا یہ نیم پاگل نظر آنے والا شخص سپاہی مقبول حسین تھا کشمیر میں ہونے والے آپریشن کاسپاہی جو دشمن کی قید میں زندگی کے چالیس برس گزار کر اپنی دھرتی ماں کے پاس واپس پہنچا تھا اس دعوے کے پیش نظر مقبول حسین کو کشمیر رجمنٹل سنٹر لایا گیا کمانڈنٹ کے سامنے پیش کیا گیا اس نے ایک نوجوان فوجی کی طرح کمانڈر کو سلیوٹ کیا اور ایک کاغذ پر یہ نمبر لکھا 335139 کمانڈنٹ کو کٹی زباں والے شخص کے بارے میں اتنا ہی تجسس تھا جس کا اظہار دوسرے لوگ کر رہے تھے کمانڈنٹ کے حکم پر قیدی کے لکھے نمبر کی مدد سے جب ایک پرانی فائل کھولی گئی تو یہ واقعی سپاہی مقبول حسین تھا اس کو ملک کی محبت وفاداری اور خاص کر اپنے حلف کی پاسداری کہتے ہیں مقبول حسین نے اپنا سب کچھ گنوا دیا ماریں کھائیں ذہنی اذیت سہی زبان کٹوا دی دماغی توازن کھو دیا اپنے پیاروں سے دور رہا زندگی کی ایک دو نہیں چالیس برس چیل میں گزار دیے لیکن جب اپنے ملک اور اپنی یونٹ میں پہنچا تو اپنے آفیسر کو سلیوٹ کے بعد کہا جناب میرے لیے کیا حکم ہے دوسری طرف ہمارے سیاست دان ہیں ان کو اقتدار اور پیسے کے علاوہ نظر ہی کچھ نہیں آتا میں کسی ایک جماعت یا لیڈر کے بارے میں نہیں کہتا لیگی جیالا یا انصافی بن کر نہیں صرف اور صرف پاکستانی بن کر زرہ سوچیں کہ کیا یہ اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر حلف اٹھاتے ہیں کہ ہم پاکستان کے وفادار رہیں گے اور کوئی ایسا کام نہیں کریں گے کہ جس سے ملک کو نقصان ہو کسی نے بھی اپنے اس حلف کی پاسداری کی ہے اگر یہ اپنے حلف پر قائم و دائم رہتے تو آج ملک کا یہ حال ہوتا ان کی حرکات و بے وفائیوں کی وجہ سے سمجھدار اور سلجھے ہوئے لوگ بھی دو قومی نظریہ پر سوالات اٹھانا شروع ہوگے ہیں اپنے عظیم ہیروز کے بارے میں شکوک وشبہات میں مبتلا ہو کر ان کو ولن بنا رہے ہیں اگر یہ اپنے حلف پر پکے ارادے سے کاربند رہتے تو آج ہمارا ملک ڈیفالٹ کے قریب نہیں اور نہ ہی ہماری موٹر ویز اور ادارے گروی ہوتے بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہوتا ان کو صرف کرسی سے محبت ہے یہ اس کے حصول کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں چاہے ملک کا سودا ہی کیوں نہ کرنا پڑے ہمیں صرف ایک مقبول حسین چاہیے جو اپنا حلف نہ بھولے۔
