پاکستان کی مقبول سیاسی جماعتوں کا المیہ اور قیادت کے لئے نشان عبرت ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ اس سے کوئی سبق نہیں سیکھتا علی محمد خان جب پورے ایوان میں کئی گھنٹے سے اکیلا ڈٹا ہوا تھا تو 12 کروڑ کے صوبہ پنجاب پر چار سال تک بلا شرکت غیرے حکومت کرنے والی اور اس وقت بیرون ملک بیٹھی فرح خان یقینا” علی محمد خان کی اس بیوقوفی پر مسکرا رہی ہو گی اگست 2018 میں نیب حوالات کا بے بس قیدی نیلا آسمان دیکھنے کو ترستا تھا، نئے وزیر اعظم عمران خان کی تقریب حلف برداری کیا دیکھتا ، مگر جیل پہنچ کر سننے میں آیا کہ دنیا بھر کے انوسٹرز اور حاتم طائی زبانوں پر خون کا آخری قطرہ بہا دینے کے بلند بانگ دعووں سمیت اسمبلی گیلری میں موجود تھے اور پھر وہی خوشامدی اور جعلساز وزیر اور مشیر مقرر ہوئے ، اقتدار کے مزے لوٹے، جیبیں بھریں اور ہوا ہو گئے۔ ایک سپاہی ہی سپاہی کا دکھ سمجھ سکتا ہے اور پاکستان کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کے لاکھوں سیاسی ورکرز علی محمد خان کے اس دکھ کو سمجھتے بھی ہوں گے اور اس کو شاباش بھی دے رہے ہوں گے کیونکہ علی محمد خان جیسے لیڈر ہی دراصل ان کے دلوں کے ہیرو ہوتے ہیں۔ کل جب چہرہ دکھانے والے ہوا کے رخ کو محسوس کر کے پیٹھ دکھا گئے تھے تو اپنی جماعت کا یہ سچا مجاہد مخالفین کے طنز یہ جملوں اور تشنیع آمیز مسکراہٹوں کی پرواہ کیے بغیر تن تنہا اپنے محاذ پر موجود تھا عمران خان نے اپنے گرد انوسٹرز اور ابن الوقت اکٹھے کرنے کے بجائے دس بیس علی محمد خان تلاش کر لئے ہوتے تو صورتحال مختلف ہوتی سیاسی جماعتوں اور قیادتوں کو ان تصاویر سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہےنہ صرف اعلی قیادتوں بلکہ درمیانی قیادت اور ایم این اے / ایم پی اے حضرات کو بھی ان مقامی چرب زبان انوسٹرز سے محتاط رہنا چاہیئے جو انہیں یا ان کے منشیوں کو فائیو سٹار ہوٹلوں میں کھانے کھلا کر یا اپنی پر تعیش گاڑیوں میں سفری سہولتیں یا دیگر ” ضروری لوازمات” فراہم کر کے بظاہر ہمدردی کرتے ہیں مگر یہ چھوٹے چھوٹے خرچے اٹھانے والے دراصل ان کی اپنی بدنامی اور ان کے مخلص حقیقی ورکرز کی دل شکنی کا باعث بنتے ہیں(قمراسلام راجہ سابق ایم پی اے و نائب صدر مسلم لیگ ن پنجاب(
123