پروفیسر محمد حسین/برکت کو بیان نہیں کیا جا سکتا بلکہ محسوس کیا جا سکتا ہے آپ آمدن و اخراجات کے حساب کتاب کے چکر میں پڑے بغیر اور بنا کسی پریشانی کے اپنا کچن چلا رہے ہوں پھر چاہے آپ کی آمدن ایک لاکھ ہو یا ایک ہزار اس کی سب سے بڑی نشانی دل کا اطمینان ہوتا ہے جو کہ بڑے بڑے سیٹھوں اور سرمایہ داروں کو نصیب نہیں ہوتا اگر برکت دیکھنی ہو تو سخت گرمیوں میں سڑک کھودتے وقت مزدور کو کھانے کے وقفہ میں دیکھ لیجیے جب وہ دیوار کی اوٹ ل کر اپنی چادر پھیلا کر بیٹھتا ہے اپنا ٹفن کھول کر اس پر روٹی بچھاتا ہے پھر اچار کی چند قاشیں نکال کر اس ڈال دیتا ہے اور بسم اللہ پڑھ کر نوالہ توڑتا ہے اس کیفیت میں جو قرار اور دلی اطمینان اس کو محسوس ہو رہا ہوتا ہے وہ کسی لکھ پتی کو میک ڈونلڈ اور کے ایف سی کے مہنگے برگر کھا کر بھی نصیب نہیں ہوتا برکت کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اور آپ کے گھر کے افراد کو کسی بڑی بیماری یا مصیبت سے محفوظ رکھتا ہے انسان ‘ ہسپتال اور ڈاکٹروں کے چکروں سے بچار ہتا ہے یوں اس کی آمد ن پانی کی طرح بہہ جانے سے محفوظ رہ جاتی ہے برکت کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ آپ کی بیوی قناعت پسند اور شکر گزار ہے وہ تھوڑے پر راضی ہو جاتی ہے کپڑوں میک اپ اور دیگر فرمائشوں سے آپ کی جیب پر بوجھ نہیں بنتی یوں آپ کو اطمینان قلب کے ساتھ ساتھ مالی مشکلوں سے بھی بچا لیتی ہے برکت ایک کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نیک اور شکر گزار اولاد عطا کی ہے وہ اپنے دوستوں کی دیکھا دیکھی ‘ آئے دن سے نئی نئی فرمائشیں کہیں کرتی بلکہ قانع اور شاکر رہتی ہے برکت کا تعلق مادی ذرائع کے برعکس اللہ تعالیٰ کی غیبی امداد سے ہے ایسی غیبی امداد جو نہ صرف آپ کے قلب کو اطمینان کا سرور دے بلکہ آپ کی ضروریات بھی آپ کی آمدن کے اندراندر پوری ہو جائیں یہ تو مال اور آمدن میں برکت ہوئی اسی طرح وقت اور زندگی میں بھی برکت ہوتی ہے وقت میں برکت یہ ہے کہ آپ کم وقت میں زیادہ اور نتیجہ خیز کام کر سکیں آپ کا وقت ادھر ادھر فضول چیزوں میں ضائع نہ ہو اسی طرح عمر میں برکت یہ ہے کہ آپ کی زندگی برے کاموں میں خرچ نہ ہو رہی ہو بکہ اچھے کاموں میں صرف ہو رہی ہو کم کھانا ،زیادہ اخوادمیں پورا پڑ جانا بھی برکت ہے آپ کی کم محنت کا پھل زیادہ آمدن یا پیداوار کی صورت میں نکلنا بھی برکت ہے یوں سمجھیں کہ برکت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندے کے لیے سپیشل انعام ہے برکت کے حصول کا نہایت آسان طریقہ صدقہ کرنا ہے یا کسی یتیم کی کفالت کرنا ہے آپ اپنے خاندان قبیلہ یا محلہ میں دیکھیں کوئی یتیم ہو اس کو اپنا بیٹا یا بیٹی بنا لیں اس کی پرورش اس طرح کریں جیسے اپنی سگی اولاد کی جاتی ہے پھر دیکھیں کہ کس طرح برکت آپ کے گھر چھپر پھاڑکر آتی ہے بھول جائیں کہ جس گھر میں لوگ دن چڑھنے تک سو تے رہتے ہوں وہاں کبھی برکت آئے گی کیونکہ نبی کریم کاارشاد ہے کہ میری امت کے لیے دن کے اولین حصے میں برکت رکھ دی گئی ہے اسی طرح شوقیہ کتا پالنا ‘تصویریں اور میوزک بھی برکت کے اٹھ جانے کے اسباب میں سے ہیں اس کے علاوہ لباس اور جسم کو پاک رکھنا اور حلال ذریعہ آمدن برکت کے حصول کے لیے لازم و ملزوم ہیں کوئی سودی اور ناجائز کاروبار میں ملوث ہو یا جسم اور کپڑوں کو ناپاک رکھتا ہو اور پھر برکت کا امیدوار بھی ہو تو اس کی سادہ لوحی پر حیران ہی ہوا جا سکتا ہے ۔ا ب لعنت بھیجنے کے عمل کی طرف آتے ہیں جب ایک مسلمان کسی دوسرے انسان پر یا زندہ یا بے جان چیز پر لعنت بھیجتا ہے تو دراصل وہ اللہ کی عدالت میں ایک مقدمہ دائر کرتا ہے کہ اے اللہ اس شخص یا چیز کو تو اپنی رحمت سے دور کر دے اس کو ذلیل و خوار کر دے اس سے اپنی رحمت کے فرشتوں کو ہٹا لے اور اس کو تباہ و برباد کر تے ہوئے اس کو اپنی رحمتوں سے محروم کر دے جو تو اپنے مومنوں او را پنے پیارے بندوں کو دیتا ہے ذرا سوچئیے کہ یہ کوئی دنیا کی عدالت نہیں ہے جہاں کوئی اپیل پہنچے اور وہ سردخانے میں پڑی رہے یہ اللہ کی عدالت ہے جہاں اپیل پر فورا نظر ڈالی جاتی ہے اگر مبنی برحق ہے تو لعنت کا فیصلہ ہو جاتا ہے اوراگر مقدمہ جھوٹا ہے تو فریادی خودہی ماخوذ ہو جاتا ہے اور پھر وہی لعنت اس کے منہ پر ماردی جاتی ہے اسی لیے جو لوگ دین کی سمجھ رکھتے ہیں وہ اس لفظ کو بہت احتیاط سے استعمال کرتے ہیں اس کو تکیہ کلام نہیں بنا لیتے کہ اٹھتے بیٹھتے ہر وقت اور ہر چیز پر لعنت بھیج رہے ہوں اللہ کی نبی نے جانوروں تک پر لعنت کرنے سے منع فرمایا ہے آپ ایک بار سفر میں تھے اور انصار کی ایک عورت اونٹنی پر سوار تھی تو اچانک وہ اونٹنی بدکنے لگی اس عورت نے اپنی اونٹنی پر لعنت کی رسول اللہ نے اسے سن لیا تو فرمایا اس اونٹنی پر جو سامان ہے اسے اتار لو اور اونٹنی کو چھوڑ دو کیونکہ اب یہ ملعونہ ہے (مسلم )
334