90

بجٹ 2025-26 ریلیف یا بوجھ

شہباز شریف کی حکومت نے  17.5 ہزار ارب روپے کا وفاقی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دیا ہے، جسے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے قومی معیشت کو استحکام اور نمو کی طرف گامزن کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ اس بجٹ میں جہاں کچھ مثبت اقدامات کیے گئے ہیں، وہیں بہت سے سوالات نے بھی جنم لیا ہے، خاص طور پر اس حوالے سے کہ آیا اس بجٹ میں عام آدمی کو کوئی ریلیف ملا ہے یا وہ مزید مہنگائی کے بوجھ تلے دبے گا۔

دفاعی اور سرکاری اخراجات میں اضافہ، بجٹ میں دفاعی بجٹ میں 20 فیصد اضافہ تجویز کیا گیا ہے جو خطے کی سکیورٹی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے شاید ناگزیر ہو، تاہم اس کا براہِ راست اثر وسائل کی تقسیم پر پڑتا ہے۔ دوسری جانب سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 10 فیصد اضافہ تجویز کیا گیا ہے، جو بظاہر خوش آئند ہے مگر جب اس کا موازنہ مہنگائی کی شرح سے کیا جائے تو یہ اضافہ ناکافی محسوس ہوتا ہے۔

عام آدمی کے لیے ریلیف یا دھوکہ؟ حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ بجٹ میں عام آدمی کے لیے سہولیات رکھی گئی ہیں، تاہم زمینی حقائق کچھ اور ہی کہانی سناتے ہیں۔ روزمرہ استعمال کی اشیاء، بجلی، گیس، پٹرول، تعلیم اور صحت جیسے شعبوں میں براہ راست سبسڈی میں کمی یا ٹیکسوں میں اضافہ متوسط اور غریب طبقے پر بوجھ ڈالے گا۔ اگرچہ حکومت نے کچھ شعبوں میں “ٹارگیٹڈ سبسڈی” کی بات کی ہے، لیکن پاکستان جیسے ملک میں جہاں ڈیٹا کا فقدان اور بدانتظامی عام ہے، وہاں اس سبسڈی کا اصل مستحق تک پہنچنا ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔

ٹیکس اصلاحات اور بوجھ کا توازن،بجٹ میں ٹیکس وصولیوں کا ہدف 12,000 ارب روپے سے زائد رکھا گیا ہے جو پچھلے سال کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت ٹیکس نیٹ کو بڑھانے یا موجودہ ٹیکس دہندگان پر مزید بوجھ ڈالنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کا ٹیکس نظام پہلے ہی ناہموار ہے، جہاں تنخواہ دار طبقہ یا متوسط طبقہ ٹیکس کی ادائیگی میں سب سے آگے ہے جبکہ بڑے کاروباری، جاگیردار اور اشرافیہ اکثر بچ نکلتے ہیں۔ اگر اس بار بھی یہی صورتحال برقرار رہی تو بجٹ کا بوجھ ایک بار پھر عام پاکستانی کی جیب پر پڑے گا۔

مہنگائی کا سونامی، اس وقت پاکستان میں مہنگائی کی شرح دو ہندسی اعداد میں ہے۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں۔ بجٹ میں اگرچہ کچھ اقدامات مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے کیے گئے ہیں، لیکن وہ ناکافی دکھائی دیتے ہیں۔ بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافے کے اشارے، اور پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی میں ممکنہ اضافہ مہنگائی کے طوفان کو مزید تیز کر سکتا ہے۔ ایسے حالات میں ریلیف کے دعوے محض الفاظ کی حد تک محدود نظر آتے ہیں۔

ترقیاتی بجٹ اور معاشی سمت،ترقیاتی بجٹ میں مختلف منصوبوں کے لیے رقوم مختص کی گئی ہیں، جس میں انفراسٹرکچر، تعلیم، اور صحت شامل ہیں۔ یہ مثبت پہلو ہے، بشرطیکہ ان منصوبوں پر شفاف طریقے سے عملدرآمد کیا جائے اور کرپشن کا خاتمہ یقینی بنایا جائے۔ اگر ترقیاتی کاموں کے اثرات عام عوام تک پہنچیں، تو اس سے روزگار کے مواقع بڑھ سکتے ہیں اور مہنگائی کا کچھ بوجھ کم کیا جا سکتا ہے۔

عوامی اعتماد اور شفافیت کی ضرورت،بجٹ صرف اعداد و شمار کا مجموعہ نہیں ہوتا، بلکہ یہ عوام کے ساتھ حکومت کا عمرانی معاہدہ ہوتا ہے۔ اس وقت عوام کا اعتماد حکومتی پالیسیوں پر متزلزل ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ حکومت بجٹ کے نفاذ میں شفافیت، ایمانداری اور سنجیدگی دکھائے۔ سبسڈی کو صحیح لوگوں تک پہنچایا جائے، ٹیکس اصلاحات میں بڑے طبقوں کو بھی شامل کیا جائے اور غیر ضروری اخراجات کو کم کیا جائے۔امید اور تشویش ساتھ ساتھ بجٹ 2025-26 میں کچھ مثبت پہلو ضرور موجود ہیں، جیسے ترقیاتی بجٹ میں اضافہ اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ، مگر مجموعی طور پر یہ بجٹ عام آدمی کے لیے ریلیف کم اور مہنگائی کا بوجھ زیادہ لاتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ وقت حکومت کے لیے ایک امتحان ہے کہ وہ دعووں کو عملی جامہ پہنائے اور عام شہری کو حقیقی ریلیف فراہم کرے، نہ کہ صرف اعداد و شمار کی جادوگری کے ذریعے وقتی تسلی دے کر اپنی آنکھیں بند کر لے 

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں