136

باجوڑ کا دلخراش سانحہ

گزشتہ روز باجوڑ میں ایک دل دہلا دینے والا سانحہ پیش آیا جس نے ہمیں ایک بار پھر ہلا کر رکھ دیا۔ ایک کے بعد ایک سانحہ جو قوم کو مزید کمزور سے کمزور تر کرتا چلا جا رہا ہے اور ملک کی ساخت کو نقصان پہنچا رہا ہے، کہنے کو تو یہ ایک واقعہ تھا اور ایسے واقعات کو سننے کے ہم عادی ہو چکے ہیں، کہیں کتنے لوگ کسی سانحہ میں مارے جاتے ہیں اور کہیں کتنے۔گزشتہ 20 برس سے ہم ان سانحات سے گزر رہے ہیں اور اب ہمارے کان اس قسم کی خبروں کے عادی ہو چکے ہیں کہ ایک واقعہ ہوا اتنے لوگ مارے گئے اور گزر گیا میڈیا پر دو دن شور مچتا ہے دو دن اس پر تبصرے ہوتے ہیں خبریں چلتی ہیں تجزیے ہوتے ہیں اور اس کے بعد اسے فراموش کر دیا جاتا ہے پھر ہم کسی نئے واقعہ کے انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں پھر دوسرا واقعہ ہو جاتا ہے اس پر بھی اسی طرح دو دن خبریں چلتی ہیں تجزیے ہوتے ہیں شور مچتا ہے اور اسے فراموش کر کے تیسرے واقعہ کے انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں، کوئی حفاظتی اقدامات نہیں ہوتے کسی قسم کے پیشگی انتظامات نہیں کیے جاتے اور سانحات پہ سانحات بھگت رہے ہیں۔
اب عام لوگوں کے لیے جو اس واقعہ کو سنتے ہیں ان کے لیے تو یہ ایک واقعہ ہے یا ایک خبر ہے جو میڈیا پر چلی تھوڑا سا افسوس کا اظہار کیا اور بس ختم۔ مگر جن لوگوں کے گھر اجڑ جاتے ہیں، جن لوگوں کے جوان بیٹے ان واقعات میں شہید ہو جاتے ہیں، جو بچے یتیم ہو جاتے ہیں، جو عورتیں بیوہ ہو جاتی ہیں ان سے پوچھیں کہ یہ خبر ہے، ایک واقعہ ہے یا زندگی بھر کا رونا اور زندگی بھر کے دکھ درد اپنے ساتھ لے کر آنے والا ایک عظیم سانحہ ہے جو ان کے گھروں پر قیامت کی طرح ٹوٹتا ہے اور پھر ساری زندگی ان کے دلوں سے نہیں نکل پاتا۔ لوگ فراموش کر دیتے ہیں میڈیا بھی بھول جاتا ہے لیکن وہ لوگ کیسے بھول سکتے ہیں، جن کے گھر اجڑ جاتے ہیں، جن کے پیارے ان سے جدا ہو جاتے ہیں، جن کے زندگی کے سہارے ان سے چھن جاتے ہیں، جن کے سروں سے باپ کے سائے چلے جاتے ہیں،جو اپنے سہاگ سے محروم ہو جاتی ہیں یہ لوگ عمر بھر اس غم کو نہیں مٹا پاتے۔
گزشتہ روز باجوڑ میں جمعیت علمائے اسلام کے ورکرز کنونشن کے دوران جو نہایت افسوسناک واقعہ پیش آیا اس میں 40 سے زائد افراد شہید ہو گئے کہنے کو تو یہ 40 افراد تھے مگر یہ ایک پورے شہر کو اجاڑ دینے کے لیے کافی تھے اور واقعی 40 سے زائد افراد ایک شہر کے اندر اگر ایک حادثہ میں شہید ہو جائیں تو اس سے پورا شہر اجڑ ہی جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس پر پورے ملک کے لوگ آنسو بہا رہے ہیں اور افسوس کا اظہار کر رہے ہیں۔ ہم جیسے لوگ جنہوں نے کبھی باجوڑ دیکھا ہی نہیں وہ لوگ بھی اس پر اتنے افسردہ ہیں تو جو لوگ ان کے قریبی ہوں گے جو لوگ ان کو جانتے ہوں گے پھر جو ان کے گھروں اور ان کے خاندان والے ہوں گے ان پر اس وقت کیا گزر رہی ہوگی یہ وہی سمجھ سکتا ہے جس پر گزری، اللہ سب کو محفوظ فرمائے اور لواحقین کو صبر عطا فرمائے۔ ایک انتہائی پرامن کنونشن کے اندر جو سیاسی کارکنوں کا کنونشن تھا جو نہایت پرامن لوگ تھے ان کے اوپر اس قسم کا حملہ ہو جانا اور ان کے خلاف اس قسم کی کاروائی ہونا، انتہائی افسوس کی بات ہے اور ان کو اس قسم کے حملوں کا نشانہ بنانا سمجھ سے بالاتر ہے کہ اس کے پیچھے کیا مقاصد ہو سکتے ہیں؟ ان کے ساتھ کس کی دشمنی ہو سکتی ہے؟
اب مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے صرف مذمت پر اکتفا کر لینے کو کافی سمجھ لیا ہے کہیں بھی کوئی واقعہ ہو جائے یہ مذمتی بیان
جاری کر دیتے ہیں اور بس ان کے لیے کافی ہو جاتا ہے۔ مذمتی بیان بھی اس لیے جاری کرتے ہیں کہ اگر یہ نہ جاری کریں تو ان پر تنقید ہوتی ہے اس لیے اس تنقید سے بچنے کے لیے بھی حکمرانوں کو مجبورا مذمتی بیانات جاری کرنے پڑتے ہیں اور پھر وہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی ہے حالانکہ ان کی ذمہ داری یہ نہیں ہے کہ وہ مذمتی بیان جاری کریں بلکہ ان کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ دہشتگردوں کے خلاف ٹھوس اقدامات کریں اور سخت کاروائیاں کریں اور جو ادارے اس کے ذمہ دار ہیں ان سے پوچھ گچھ کریں کہ اگر یہ ایسا واقعہ ہوا ہے تو کیوں ہوا ہے، اپ لوگ کہاں تھے جب اس کی پلاننگ ہو رہی تھی اور جب حملہ آور یہاں آ رہے تھے اس وقت اپ کہاں پر تھے؟ ادارہ کوئی بھی ہو احتساب سے بالاتر نہیں ہونا چاہیے، ہر ادارے کا احتساب ہونا چاہیے اور کہیں بھی کوئی لاپرواہی یا کوتاہی ہو تو اس کی ذمہ داران سے پوچھنا چاہیے کہ اتنا بڑا سانحہ ہو گیا اور اپ کو پتہ بھی نہیں چلا تو اپ اپنی ذمہ داریاں کیسے ادا کر رہے ہیں؟
قوم پوچھ رہی ہے کہ ہم نے یہ اتنا مضبوط ادارے بنا رکھے ہیں، ہمارا اتنا خرچہ ان اداروں پر ہو رہا ہے ہم اپنے بجٹ کا ایک بڑا حصہ ان اداروں پر خرچ کر رہے ہیں، اس کے باوجود اتنے بڑے بڑے سانحات پے در پے ہو رہے ہیں، ایک کے بعد ایک سانحہ قوم برداشت کر رہی ہے، تو پھر یہ ادارے کس لیے بنائے ہیں کس لیے ان کے افسران کو تنخواہیں اور مراعات دی جاتی ہیں؟ کس لیے ان اداروں میں ملازمین کام کر رہے ہیں، ان اداروں کا مقصد اور ذمہ داری کیا ہے اگر انہوں نے قوم کو ان دہشتگردوں سے محفوظ نہیں رکھنا یا دہشتگردوں کی نقل و حرکت کا انہیں علم نہیں ہوتا تو پھر مقصد کیا ہے ان اداروں کا؟یہ سب چیزیں پوچھنی چاہیے اور ہر ادارے کا احتساب ہونا چاہیے تبھی ایسے واقعات کی روک تھام ممکن ہوگی۔ اگر ان اداروں سے پوچھا نہ جائے تو وہ تو بے فکر رہیں گے۔ ٹھیک ہے کوئی سانحہ ہو گیا، بس اس کو ایک حادثہ سمجھ کر دو دن اس پہ تبصرہ ہوا اور پھر فراموش کر دیا گیا تو اس طرح کون اپنی ذمہ داریاں پوری کرتا ہے؟اس لیے احساس ذمہ داری دلانے کے لیے اداروں سے احتساب ضروری ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں