ضیاء الرحمن ضیاء/بلدیاتی ادارے ملکی نظام چلانے کے لیے حکومت کے معاون ثابت ہوتے ہیں اور عوام کے لیے بھی آسانی کا باعث بنتے ہیں ملکی ترقی میں بلدیاتی ادارے اہم کردار ادا کرتے ہیں، بلدیاتی نمائندوں تک عوام کی رسائی بھی آسان ہوتی ہے، ہر یونین کونسل کی حدود میں کئی بلدیاتی نمائندے ہوتے ہیں جو مختلف محلوں سے تعلق رکھتے ہیں اور عوام کی ان تک رسائی آسان ہوتی ہے۔ وہ ان نمائندوں کے ذریعے اپنے مسائل کو باآسانی حکام بالا تک پہنچا پاتے ہیں۔ ویسے تو وزراء اور اراکین صوبائی و قومی اسمبلی کے نمائندوں تک تو عوام کی رسائی نہیں ہوتی وہ تو صرف انتخابات کے دنوں میں ہی عوام کو نظر آتے ہیں جیسے ہی انتخابات میں منتخب ہو جاتے ہیں تو پھر پانچ سال تک وہ عوام کو نظر نہیں آتے تو اس کمی کو پورا کرنے کے لیے بلدیاتی ادارے قائم کیے جاتے ہیں۔ ویسے بھی ایک ایم این اے یا ایم پی اے کا علاقہ کافی بڑا ہوتا ہے اس لیے ہر ہر علاقے کی طرف توجہ نہیں دی جاسکتی یا دی نہیں جاتی، تو بلدیاتی نمائندے اس کمی کو پورا کرنے کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں تاکہ ہر محلے میں کم از کم ایک نمائندہ ہو جو مقامی سطح پر عوام کے مسائل سنے اور حکام بالا تک پہنچائے اور ان کے حل کے لیے کوشش کرے۔ جب ملک میں جمہوری نظام نافذ ہے تو پھر اس کے تقاضے بھی پورے کرنے چاہیئیں۔ اصل جمہوریت تو یہی ہے کہ اختیارات انتہائی نچلی سطح پر منتقل ہوں اور عوام کی زیادہ سے زیادہ آسانی کے لیے زیادہ سے زیادہ نمائندے نچلی سطح پر منتخب کیے جائیں اور وہ اپنے آئینی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے عوام کے مسائل کے حل کے لیے کوشش کریں۔ تمام ترقی یافتہ ممالک میں مضبوط بلدیاتی نظام موجود ہے جس کی وجہ سے وہاں نچلی سطح کے مسائل فوراً حل ہو جاتے ہیں اور وہاں صحت، صفائی، تعلیم اور دیگر مسائل نہ ہونے کے برابر ہیں جبکہ ہمارے ملک میں مضبوط بلدیاتی نظام نہ ہونے کی وجہ سے نچلی سطح کے عوامی مسائل جوں کے توں ہیں، جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر لگے رہتے ہیں جن کی وجہ سے مختلف قسم کی بیماریاں پھیلتی ہیں، علاج معالجے کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے مریضوں کے لیے علاج کرانا نہایت دشوار ہے، معیاری تعلیم بھی عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہے، دیگر کئی طرح کے مسائل حل کرنے کے لیے عوام دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں جبکہ ان کی کہیں شنوائی نہیں ہوتی۔اگر بلدیاتی نمائندے اپنے پورے اختیارات کے ساتھ موجود ہوں تو ان کے ذریعے عوام کی دہلیز پر ان کے مسائل سنے جاتے ہیں اور وہیں ان کے حل کی کوئی صورت نکالی جاتی ہے کیونکہ ایک بااختیار شخص جب کسی علاقے میں موجود ہو اور ہر شخص کے اس کے ساتھ بلاواسطہ تعلقات ہوں تو وہ اسے اپنے مسائل کے بارے میں باآسانی آگا ہ کر سکتے ہیں۔ اس طرح عوام کی حکومت قائم ہو جاتی ہے جو جمہوریت کا اصل مقصد ہے کہ عوام کی حکومت عوام کے ذریعے قائم کی جائے۔ تو جب اختیارات کو اتنی نچلی سطح پر منتقل کر دیا جائے تو بڑی حد تک یہ مقصد حاصل ہو جاتا ہے اور عوام ان نمائندوں کی وجہ سے جمہوری نظام سے کافی مطمئن ہوجاتے ہیں۔ بلدیاتی نمائندوں کی اہمیت و ضرورت کے پیش نظر بلدیاتی انتخابات کرانے توضروری ہیں لیکن ان کا حقیقی فائدہ تبھی ہوتا ہے جب انہیں مکمل طور پر اختیارات دیے جائیں اور وہ اپنے اختیارات کا آزادانہ استعمال بھی کر سکیں۔ اگر اختیارات کی منتقلی بلدیاتی نمائندوں تک نہ ہو سکے تو ان انتخابات کا فائدہ نہیں ہوتا بلکہ یہ سراسر نقصان کا باعث بنتے ہیں۔ سب سے پہلے تو انتخابات پر جو خطیر رقم خرچ ہوتی ہے وہی ایک کمزور معیشت والے ملک کے لیے کیا کم ہے؟ کروڑوں اربوں روپے لگانے کے بعد یہ انتخابات پایہ تکمیل کو پہنچتے ہیں اور پھر منتخب ہونے والے نمائندے اپنے اختیارات کا استعمال نہیں کر سکتے تو عوام ان سے متنفر ہو جاتے ہیں اور وہ عوام کے سامنے شرمساررہتے ہیں کیونکہ عوام کی نظر میں تو وہ ان کے منتخب نمائندے ہیں اور انہیں اسی لیے منتخب کیا گیاتھا کہ وہ ان کے مسائل حل کریں گے جب وہ ان کے مسائل حل نہیں کرتے تو عوام انہیں برا بھلا کہتے ہیں۔ اسی طرح گلی محلے کے لوگ جب ایک دوسرے کے مقابلے میں انتخابات میں حصہ لیتے ہیں تو ان کے آپس میں بھی تعلقات خراب ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں فوجی حکومتوں نے تو بلدیاتی نظام قائم کیا اور عوام کو بااختیار بلدیاتی نمائندے دیے لیکن جمہوری حکومتوں نے اس اہم ترین جمہوری ادارے کے لیے کچھ نہیں کیااگرچہ ملکی سطح پر بڑے بڑے کام جمہوری حکومتوں نے ہی کرائے لیکن نچلی سطح پر عوام کے مسائل جوں کے توں رہے اور عوام کو حکومت کے بڑے بڑے کارناموں کا براہ راست فائدہ نہ ہوا جس کی وجہ سے وہ احساس محرومی کا شکار رہے۔ جبکہ صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے اراکین بلدیاتی نظام کے مخالف رہے جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ جب بلدیاتی نمائندے منتخب ہو جاتے ہیں تو فنڈز وغیرہ انہیں منتقل ہوجاتے ہیں ان کے ہاتھ کچھ نہیں آتا جس میں سے وہ کرپشن کر سکیں یا عوام کے سامنے ترقیاتی کاموں کا کریڈٹ لے سکیں چنانچہ وہ اس نظام میں رکاوٹ بن جاتے ہیں اور بلدیاتی نظام قائم نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ وہ ایک مضبوط بلدیاتی نظام لائے تاکہ عوام کے مسائل کا حل ہو سکے لیکن اگر گزشتہ دور کی طرح یہ نظام فقط انتخابات تک ہی محدود رہنا ہے تو پھر اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے اگر بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات نہیں دینے تو صرف دکھاوے کے انتخابات پر بڑی رقم خرچ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
196