143

این اے 59 کا معرکہ کون سر کرے گا

پاکستان تحریک انصاف کے قومی اسمبلی کی نشستوں پر استعفے منظور ہونے کے بعد ضمنی انتخابات کا سلسلہ جاری ہے راولپنڈی میں بھی ضمنی انتخابات ہونے جارہے ہیں حلقہ این اے 59 کی سیاسی صورتحال پر نظر ڈالیں تو یہاں ان ضمنی انتخابات میں دلچسپ صورتحال دیکھنے کو مل رہی ہے یہاں بات کریں ہم پاکستان تحریک انصاف کی تو یہاں سے تحریک انصاف کے دو امیدوار ٹکٹ کے حصول کے لیے کوشاں ہیں ایک یہاں سے سابق ایم این اے جنکی چھوڑی ہوئی نشست پر انتخابات ہونے جارہے غلام سرور خان اور دوسرے تحریک انصاف کے دیرینہ ساتھی اور 2013 کے ایم این اے کے امیدوار کرنل اجمل صابر راجہ ہیں جنھوں نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروا دیے ہیں غلام سرور خان حلقے میں ترقیاتی کاموں کے حوالے سے اور ہر خوشی غمی میں شریک ہونے کے سبب حلقے میں مقبولیت رکھتے ہیں اور تحریک انصاف کے ووٹرز انکو ووٹ بھی دیں گے یعنی تحریک انصاف کی بظاہر پوزیشن بہتر نظر آرہی ہے مگر دوسری جانب انکی جماعت کے ہی کرنل اجمل صابر راجہ اگر انکے مدمقابل آزاد امیدوار ہوئے تو اس سے تحریک انصاف کے ووٹ تقسیم ہونگے کیونکہ کرنل اجمل صابر راجہ بھی اپنا ایک ووٹ بنک رکھتے اور اس حلقے میں اپنا اثر و رسوخ رکھتے ہیں اسکے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کے بہت سے کارکنان کی بھی خواہش کے اس بار ٹکٹ کرنل اجمل صابر راجہ کو ملے اور جو ماضی میں انکے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا بھی کا ازالہ ہوسکے تو ایسے میں یہاں تحریک انصاف کے ووٹرز تقسیم ہونگے جسکا فائدہ یقینی طور پر تیسرے سیاسی حریف کو ہوگا اس حلقے میں ماضی 2018 کے انتخابات کی بات کی جائے تو دوسرے نمبر پر آنے والے امیدوار چوہدری نثار علی خان جنھوں نے غلام سرور خان کو ٹف ٹائم دیا وہ بھی الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں انھوں نے بھی اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروا دئیے ہیں

انکی سیاسی صورتحال پر نظر ڈالیں تو انکے ساتھ چلنے والے ماضی کے کچھ ساتھی انکے ساتھ آج بھی موجود ہے مگر اکثریت انکو چھوڑ کر تحریک انصاف یا مسلم لیگ ن کو پیاری ہوگئی ہے کیونکہ چوہدری نثار علی خان کی مکمل خاموشی نے انکو سیاسی طور پر بہت زیادہ نقصان دیا ہے یہی وجہ کے انکے بہت سے ساتھی انکی چھتری سے نکل کر مسلم لیگ ن کا حصہ بن چکے ہیں جسکا انکو نقصان ہوگا اسکے علاوہ 2018 کے عام انتخابات میں عوام کو یہ بھی نظر آرہا تھا کہ چوہدری نثار علی خان الیکشن میں کامیاب ہونے کے بعد مسلم لیگ ن کا حصہ ہونگے کیونکہ انھوں نے ن سے لاتعلقی کا اعلان نہیں کیا تھا یہی وجہ تھی کہ مسلم لیگ ن کے ووٹرز نے بھی انکو اپنا ووٹ دیا تھا لیکن اب جب چار سال سے زائد کا عرصہ گذر گیا اور سب پر عیاں بھی ہوگیا کہ وہ مسلم لیگ ن کا حصہ نہیں رہے تو اب ن لیگی ووٹرز مشکل ہے اپنا امیدوار ہوتے ہوئے انکو ووٹ دیں یعنی چوہدری نثار علی خان کو انکی خاموشی اور کوئی بھی فیصلہ نہ کرنے کا نقصان یقینی طور پر ہوگا اسی طرح اس حلقے سے تیسری پوزیشن پر مسلم لیگ ن تھی جنکے امیدوار انجینئر قمر اسلام راجہ تھے وہ بھی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں اور اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروا دیے ہیں

انجنیئر قمر اسلام راجہ 2018 کے انتخابات کے دوران اچانک گرفتار ہوگئے تھے اور وہ الیکشن کے دوران پابند سلاسل تھے انکی غیر موجودگی میں الیکشن کمپین انکے بچوں نے چلائی تھی یہی وجہ کے پورے پاکستان کی نظریں اس حلقے پر لگی ہوئی تھی مگر نتائج جب آئے تو انکے بچوں کی اچھی الیکشن کمپین کے سبب وہ تیسرے نمبر پر آئے مگر اب اس حلقے میں انکی جیل سے واپسی کے بعد صورتحال یکسر تبدیل ہوچکی ہے کیونکہ انھوں نے اپنی رہائی کے بعد حلقے کی عوام سے رابطہ قائم کیا اور ہر کسی کی خوشی غمی میں شریک ہوئے یہی وجہ کہ چوہدری نثار علی خان کے بہت سے ساتھی جنھوں نے 2018 میں انکو سپورٹ کیا تھا انھوں نے مسلم لیگ ن میں شمولیت کر لی انکی تگ ودو کے سبب اس حلقے میں مسلم لیگ ن جو اپنا مقام کھو چکی تھی دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی دکھائی دی اب اس حلقہ میں مسلم لیگ ن اپنے حریفوں کو ٹف ٹائم دے گی اسی طرح اس حلقے میں چوتھے نمبر پر تحریک لبیک پاکستان کا امیدوار تھا اور ان انتخابات میں بھی تحریک لبیک پاکستان کے نئی نوجوان قیادت چوہدری تیمور خالد نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروائے ہیں انکا اس حلقے میں اچھا خاصا ووٹ بنک ہے اسکے علاوہ تیمور خالد یہاں کے مقامی اس لیے انکا ذاتی اثر و رسوخ بھی ہے جو انکے کام آئے گا اس لیے ان انتخابات میں تحریک لبیک پاکستان گیم چینجر ثابت ہوگی اور اپنے مخالفین کو ٹف ٹائم دیں گے اسکے علاوہ اس حلقے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے چوہدری ظہیر محمود بھی الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں اب جیت کا سہرا کس کے سر سجے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر تاحال اس حلقے میں پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے مگر چوہدری نثار علی خان اور تحریک لبیک پاکستان کو بھی کسی صورت کمزور حریف نہیں سمجھنا کیونکہ انھوں نے بھی اپنے حریفوں کو مشکلات میں ڈالنا!

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں