138

اپنے حصے کی ذمہ داری /چوہدری محمد اشفاق

اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو دنیا میں ایک مقصد کے تحت بھیجا ہے ہر انسان کے ذمہ کچھ ذمہ داریاں لگا دی گئی ہیں آگے انسان کی قسمت ہے کچھ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں محو ہیں او ر کچھ اپنی ذمہ داریوں کو محسوس اور پورا کرنے سے عاری ہیں اچھے

انسان اس نفسا نفسی کے دور میں بھی دنیا میں موجود ہیں جن کی وجہ سے دنیا قائم ہے اور وہ مخلوق خدا کی خدمت کرنے میں مصروف ہیں ایسے لوگ ہی دنیا و آخر ت میں سر خرو ہوں گے خدمت کے مختلف طریقے ہیں ہر انسان اگر اپنے اس حصے کی ذمہ داریوں پر تھوڑی سی بھی توجہ سے تو وہ اپنے آس پاس کے ماحول کو بہت اچھا بنا سکتا ہے اصل نیکی یہی ہے کہ آس پاس کے لوگ یہ گواہی دیں کہ فلاں شخص بہت اچھا ہے میں ایک ایسے ہی نیک انسان کا ذکر ضرور کروں گا کہوٹہ شہر میں جہاں سے چوک پنڈوڑی والی بسیں چلتی ہیں اس اڈے کے بالکل ساتھ ہی ایک ہوٹل ہے جس کا نام خان ہوٹل ہے اور مالک کا نام ذمان خان ہے میں ملازمت کے سلسلہ میں 2003 سے لے کر 2011 تک کہوٹہ شہر میں آتا جاتا رہا ہوں اس ہوٹل کے بارے میں سن رکھا تھا کہ وہاں پر کھانا جس ریٹ پر دستیاب ہے ضلع راولپنڈی میں اس سے سستا ریٹ کہیں بھی نہیں ملتا ہے میں بھی اس ہوٹل پر جانا شروع ہو گیا اور یہ بات بالکل سہی پائی کہ ہر چیز نہایت ہی مناسب ریٹ پر مل رہی ہے میں روات شاہ باغ چوک پنڈوڑی اور کلر سیداں کا کوئی ہوٹل ایسا نہیں ہے جس پر بیٹھنے کا اتفاق نہ ہوا ہو لیکن میں یہ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ کہوٹہ میں واقع اس ہوٹل سے سستا ہوٹل کہیں موجود نہ ہے بہر حال میں ایک دن صبح سویرے ہوٹل میں گیا تو اتفاق سے مالک اکیلا بیٹھا ہوا تھا میں نے موقع جان کر خان زمان سے بات کرنا چاہی تو وہ پہلے ہی بھانپ کیا کہ یہ شخص مجھ سے کوئی سوال کرنا چاہتا ہے وہ میرے قریب آگیا اور مجھ سے پوچھا کہ بھائی جان آپ شاید مجھ سے کچھ کہنا چاہتے ہیں میں نے جواب دیا کہ ہاں میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ کھانا اور چائے وغیرہ اتنے سستے کیوں دے رہے ہیں اور اس کی وجہ کیا ہے جب کہ جو چیز آپ 50 روپے میں دے رہے ہیں وہ دوسرے ہوٹلوں پر 100 روپے میں مل رہی ہے اس نے ایک لمبی آہ بھری اور بولا میرے بھائی ہم تو اس نبی ﷺ کے امتی ہیں جو لوگوں کو دو ر دور سے پکڑ کر کھانا کھلاتے تھے اور خود بھوکے رہ جاتے تھے میں سستا کھانا دے کر کون سا بڑا کام کر رہا ہوں دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی یہ موقع دے کہ میں لوگوں کو فری کھانا کھلاؤں لیکن میں نہایت ہی غریب آدمی ہوں مجھے مفت کھانا کھلانے کی استطاعت نہیں ہے مجھے صرف سستا کھانا دینے استطاعت ہے اور وہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے دے رہا ہوں اور اسی میں میر ی بھلائی ہے میں اس شخص کی باتوں سے بہت متاثر ہوا اسی طرح میں ایک اور درد دل رکھنے والے شخص کا ذکر کرنا چاہوں گا میں دو ہفتے قبل پنڈی پوسٹ کے دفتر واقع سردار ماکیٹ میں موجو تھا کہ وہاں پر مشہور و معروف شعر خواں محمد اکرم گجر مرحوم کے فرزند احتشام گجر آگئے چیف ایڈیٹر پنڈی پوسٹ عبدالخطیب چوہدری نے احتشام گجر سے آنے کا سبب پوچھا تو انہوں نے اپنے موبائل فون میں سے ہمیں ایک ویڈیو دکھائی وہ ویڈیو کہوٹہ کے بالکل قریب ایک گاؤں میں رہنے والے خاندان پر مشتمل تھی جس میں ایک شخص کے پانچ نابیناں بچے دکھائے گائے وہ شخص ایک غریب آدمی ہے اور ان نابینا بچوں کی پرورش بہت مشکل سے کر رہا ہے کہوٹہ ہی کے ایک صحافی کبیر جنجوعہ نے ان بچوں کی ویڈیو بنا کر فیس بک پر اپ لوڈکی وہ ویڈیو دیکھنے پر پنڈی پوسٹ سے مشورہ لینے آیا کس طرح اس متاثرہ خاندان سے رابطہ کیا جائے تو ہم نے ان کو گائیڈ کیا کہ کس طرح ان کی خدمت کی جاسکتی ہے اس رحم دل شخص نے کہا کہ میں ان بچوں کے گھر جاؤں گا اور وہاں جا اس بات کاجائزہ لوں گا کہ ان بچوں اور ان کے والدین کی ضرورتیں کس طرح پوری کی جاسکتی ہیں میں ماہانہ بنیا د پر ان کی مدد کرتا رہوں گا ہمارے بتانے پر یہ آدمی کہوٹہ چلا گیا اور حسب توفیق اس متاثرہ خاندان کی کفالت کا ذمہ لے لیا اسی طرح دنیا میں اور بھی بے شمار افراد موجود ہیں جو اپنی حیثیت کے مطابق مخلوق خداکی خدمت کرنے میں مصروف ہیں اسی طرح اگر تمام مخیر حضرات اپنے حصے کی تھوڑی سی بھی ذمہ داری محسوس کریں تو بہت سے غربا ء اور مساکین کی کفالت ممکن ہو سکتی ہے مال و دولت اللہ کی دین ہے اور اس کی راہ میں خرچ کرنے سے یہ کم نہیں ہوتی بلکہ مزید بڑھتی ہے اور اس کا بدلہ آخر ت میں تو ملے گا ہی مگر دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ اس کا بدلہ ضرور دیتا ہے اور انسان کے رزق میں کئی گنا اضافہ کر دیتا ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس طرح کی خدمات سر انجام دینے کی توفیق عطا فر مائے ۔{jcomments on}

 

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں