columns 223

اٹریشن یا سائیدگی

روس اور یوکرین کی جنگ شروع ہوئے کافی عرصہ گزر گیا لیکن اس کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہوا بظاہر تو اس کا فیصلہ زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے میں ہو جانا چاہیے تھا روس اور یوکرین کا افرادی اور اسلحی تقابل کیا جائے تو یہ کسی بھی حوالے سے جنگ نہیں کہی جا سکتی یہی وجہ ہے کہ روس اسے ایک تنازعہ کہتا ہے یا سپیشل آپریشن کا نام دیتا ہے لیکن یوکرین کی پشت پر جو قومیں کھڑی ہیں وہ اسے جنگ کا نام دینے پر مصر ہیں روس دراصل یوکرین میں ایک بڑے پیمانے پر ایک نئی طرز جنگ کا تجربہ کر رہا ہے جس کو پروفیشنل اصطلاح میں اٹریشن کہا جا سکتا ہے لفظ اٹریشن کا معنی سائیدگی کہا جا سکتا ہے لیکن برصغیر میں چونکہ اس طرز جنگ کا کوئی تجربہ نہیں کیا گیا اس لئے اس کا نام تاریخ جنگ میں نہیں ملتا انگریزوں کی ہندوستان میں آمد سے پہلے جو جنگیں ہوتی تھیں وہ گھمسان کی جنگیں کہلاتی تھیں یہ جنگیں بہت تیزی سے لڑی جاتی تھیں کشتیوں کے پشتے لگ جاتے تھے اور نتیجہ فیصلہ کن ہوتا تھا فرنگی اقوام جب ہندوستان میں آئیں تو بارودبھی ساتھ لائیں 1526میں پانی پت کی پہلی لڑائی میں مغلیہ خاندان کے بانی ظہیر الدین بابر نے اگرچہ پہلی بار بارود توپخانہ کا استعمال کیا لیکن مغلوں نے بعد کی جنگوں میں بارود کا استعمال شاذ شاذ ہی کیا انفنٹری اور رسالہ مسلح افواج کے دو بڑے حصے ہوتے تھے جن میں نیزہ‘تیر کمان اور ڈھال کا استعمال ہوتا تھا بارود چین کی ایجاد ہے لیکن اس کا جنگی استعمال مغربی افواج نے کیا اور اولین توپ بھی وہیں ایجاد ہوئی لیکن اس بارودی جنگ میں اٹریشن کا کوئی تصور نہیں تھا یہ تصور آخری مغل شنہشاہوں کے دور میں اس وقت ہوا جب سکھوں نے مغل افواج پر چھپ کر وار کیا اس طریق جنگ میں تین عناصر قابل ذکر ہیں ایک تو فریقین کی تعداد برابر نہیں ہوتی دوسرے یہ حملے گھات لگا کر کئے جاتے اور تیسرا اچانک کئے جاتے ہیں اس اچانک طرز نبرد کو سرپرائز اٹیک کہا جاتا ہے گوریلا جنگ بھی ایک قسم کی اٹریشن ہوتی ہے جس میں دشمن کو رفتہ رفتہ نقصان پہنچا کرعاجز کرنا مقصود ہوتا ہے روس بھی یوکرین میں ایک بڑے پیمانے پر اٹریشن کا تجربہ کر رہا ہے نیٹو اور امریکہ یوکرینی فوج کو اسلحہ اور گولہ بارود فراہم کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ ہلہ شیری بھی دے رہے ہیں کہ روس یہ جنگ ہار رہا ہے لیکن زمینی شواہد بتا رہے ہیں کہ یوکرینی فوج آہستہ آہستہ ہار رہی ہے اور روسی فوج کا بھی اگر چہ رفتہ رفتہ کچھ نقصان ہو رہا ہے لیکن جنگ میں یہ آہستہ روبی یوکرین کو تھکا کر عاجز کر دے گی اور ہمیں نظر آ رہا ہے کہ فریقین کی جنگی اتلافات کا گراف روس کے حق میں ہے بات یہ نہیں کہ روس کا نقصان نہیں ہو رہا ہے اس کا نقصان تو ضرور ہو رہا ہے لیکن اس نقصان کا حجم روس کے مجموعی فوجی حجم کے مقابلے میں یوکرین سے بہت کم ہے یہی اٹریشن اور یہی سائیدگی ہے سائیدگی دراصل فارسی کا لفظ ہے جس کے معنی گھسنا اور گھسانا ہے گھسنے کا عمل آہستہ عمل پذیر ہوتا ہے ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ پاکستان کے بعض علاقے وزیرستان اور بلوچستان بطور خاص اس اٹریشن کا شکار ہیں بظاہر دو تین سولجر شہید ہوتے ہیں اور ایک دو زخمی بھی ہوتے ہیں لیکن اس کے مقابلے میں دہشت گردوں اور خود کش حملہ آوروں کا نقصان بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے اخباروں میں یہ خبر پڑھنے کو ملتی ہے کہ وزیرستان کے علاقے میران شاہ اور میر علی کے درمیان سفر کرتے ایک فوجی قافلے پر ایک خودکش حملہ ہوا اور اس میں دس سولجرز زخمی ہو گئے جن میں تین شدید زخمی ہیں حملہ آور موٹر سائیکل پر سوار تھے اس سٹرک پر موٹر سائیکلوں اور سویلین گاڑیوں کی آمدورفت ایک معمول ہے کچھ پتہ نہیں چلتا کہ موٹر سائیکل پر کون سوار ہے کون خودکش بمبار ہے اور کون نہتا سویلین ہے لیکن اندازہ کیجئے کہ ایک موٹر سائیکل خود کش حملہ آور کے
مقابلے میں پاک فوج کے دس جوان زخمی ہو جاتے ہیں یہ زخمی مل کر ایک سیکشن کی تعداد بناتے ہیں اور اگر ایک پلاٹون تین سو سولجزز بھی گاڑیوں میں جا رہی ہو تو اس کا تیسرا حصہ جنگ یا مقابلے سے باہر ہو گیادتہ خیل میران شاہ سٹرک پر اس قسم کے حملے اور حادثات ایک معمول ہیں کچھ یہی حال بلوچستان میں مستونگ‘خضدار‘تربت اور آواران کا ہے وہاں کی ٹوپوگرافی بھی گوریلا حملہ آوروں کیلئے زیادہ سازگار ہے اگر ایک ماہ کا حساب لگایا جائے تو فوج کے جانی نقصانات تشویشناک حد تک بڑھ جاتے ہیں ہمیں اس سے غرض نہیں کہ حملہ آور زیادہ تعداد میں مارے گئے یا زخمی ہو گئے ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ان جھڑپوں میں فوج کا جو جانی نقصان ہوا ہے اسے پورا کرنے میں کیا مشکلات پیش آتی ہیں ٹرانسپورٹ اور گولہ بارود کا تو نقصان پورا کیا جا سکتا ہے لیکن تربیت یافتہ سپاہی کا نقصان جلد پورا نہیں کیا جا سکتا بلکہ پورا ہو ہی نہیں سکتا شمالی وزیرستان میں سویلین اور فوجی ٹریفک کی آمدورفت کیلئے ایک ہی سڑک ہے یہاں کے زمینی نقوش اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ دو سٹرکیں تعمیر کی جائیں ایک فوجی ٹرانسپورٹ کیلئے اور دوسری سویلین گاڑیوں کیلئے یہ خودکش حملہ آور کہاں سے آتے ہیں ان کے سہولت کاروں کے ٹھکانے کہاں کہاں ہیں ان کا گولہ بارود اور ہتھیار وغیرہ کی فراہمی کا کیا بندوبست ہے؟ یہ تمام سوالات عرصہ دراز سے فوجی ہیڈ کواٹروں میں متعین کمانڈ اور سٹاف کا ایک مستقل درد سر ہیں ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا یہ اٹریشن آپریشن پاکستان کے دوسرے گنجان آباد علاقوں اور صوبوں میں بھی بروئے کار لائے جا سکتے ہیں؟جواب یہ ہے کہ ضرور بروئے کار لائے جا سکتے ہیں لیکن سہولت کاروں اور اسلحہ بارود فراہم کرنے والوں کی امداد کا جو سلسلہ شمالی یا جنوبی وزیرستان اور بلوچستان میں موجود ہے وہ پاکستان کے دوسرے شہری علاقوں میں نہیں اور اگر ہو بھی تو خال خال ہے فارسی زبان کا ایک محاورہ ہے کہ’قطرہ بیم شود دریا‘یہ محاورہ اٹریشن کے مفہوم کو واضح کرنے کیلئے ایک بہترین وضاحت ہے یہ اٹریشن وہ قیمت ہے جو پاکستان اپنی آزادی اور خود مختاری کیلئے ادا کر رہا ہے ابھی پاکستانی قوم میں وہ جذبہ اور جنون موجود ہے جو اٹریشن کو برداشت کر سکتا ہے لیکن فوج کے ارباب اختیار کیلئے یہ درد سر اندوہناک ہے کہ قطرہ قطرہ سے دریا بن جاتا ہے دعا کیجئے کہ روس یوکرین جنگ جلدی بند ہو جائے کیونکہ اس جنگ کے جاری رہنے سے ہو سکتا ہے کہ یہ جنگ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے اور اس کے نتیجے میں تیسری عالمی جنگ بھی شروع ہو سکتی ہے جو کہ نہایت خطرناک ثابت ہو گی اور پوری دنیا تباہ وبرباد ہو کر رہ جائے گی۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں