آصف شاہ‘ نمائندہ پنڈی پوسٹ
سیاسی جماعتوں کی مقبولیت میں بڑا ہاتھ کارکنوں کا ہوتا ہے جن کے بل بوتے پر سیاسی جماعتیں بلند بانگ دعوے کرتی نظر آتی ہیں ،وطن عزیز کی سیاست میں بدقسمتی سے سیاسی جماعتوں کے لیڈران ورکرز کے بجائے مفادات کو ترجیح دیتے نظر آتے ہیں،تحصٰل کلر سیداں کو ایک سیاسی مقام حاصل ہے اور یہ اپنے حلقے پر اس کے اثرات بھی مرتب کرتا ہے ،کلر سیداں کی کوئی بھی سیاسی جماعت ہو اس کا اپنی پارٹی میں ایک مقام ہوتا ہے کسی دور میں یہ پیپلز پارٹی کا گڑھ تھا ،پھر مسلم لیگ ق اور ن کی سیاست چھائی رہی اب تحریک انصاف بھی اپنے پر تولنے لگی ہے لیکن اس پارٹی میں اختلافات کا ختم نہ ہونے والا ایک سلسلہ تھا جو گزشتہ کئی سالوں سے جاری تھا اسی وجہ سے کلر سیداں میں کئی دھڑے نمودار ہوئے دوسری جانب پارٹی کے سینئر رہنماوں کی طرف سے آئے روز باڈیز بنانے اور اس کو ٹوڑنے کاجو سلسلہ تھا س نے بھی پارٹی کو مضبوط نہ ہونے دیا ،آئے روز کی اکھاڑ پچھاڑ نے پارٹی کارکنان کومایوس کر کے رکھ دیا ،اس سے پہلے ملک سہیل اشرف کو جب تحصیل صدر بنایا گیا تو انہوں نے چند دنوں کے اندر ہی پارٹی میں ایک نئی جان ڈال دی لیکن پرانی روش جب کام کا وقت آیا تو پوری کی پوری تحصیل کی باڈی ختم کر دی گئی ،اس کے بعد راجہ ساجد جاوید کو اس عہدے پر فائز کیا گیا تو ایک بار پھر وہی کہانی دوہرائی جانے لگی مختلف آوازیں آنے لگیں ،لیکن سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے راجہ ساجد جاوید نے اس معاملے کو سیاسی اور انا پرستی کی آنکھ سے دیکھنے کے بجائے اس کو پارٹی کے مفادات کی نطر سے دیکھا اور اس عہدے کو چیلنج کے طور پر قبول کرتے ہوئے فیصلہ کیا کہ سب سے پہلے اس میں موجود دھڑے بندیاں کسی طرح ختم کی جائے اور اس پر انہوں نے دن رات کام شروع کر دیا اور تو دوسری طرف ملک سہیل اشرف نے بھی اس معاملے میں ان کا کھل کر ساتھ دیا اور پارٹی کی مضبوطی کے لیے مل کر کام کرنے کی ٹھان لی جس کا رزلٹ گزشتہ دنوں کلر سیداں میں تحریک انصاف کی مشترکہ میٹنگ میں نظر آیا جب پبلک سیکر ٹریٹ کلر سیداں میں تمام علاقی لیدران مل بیٹھے اور اپنے تمام اختلافات کو بھلا کر ایک پلیٹ فارم سے کام کرنے کا عندیہ دیا یہاں پر ایک بات قابل زکر ہے کہ راجہ ساجد جاوید نے کھل کر اس بات کا عندیہ دیا کہ اگر کسی کو میری زات سے کوئی مسلہ ہے تو بھی میں پارٹی کے وسیع تر مفادات میں عہدے ست دستبردار ہونے کو تیار ہوں ،یہاں ملک سہیل اشرف جن کا اپنا ایک سیاسی قد کاتھ ہے نے بھی پارٹی کے لیے مل کر کام کرنے کی ٹھان لی ،دوسری طرف جو بات تحریک انصاف کے لیے زہر قاتل ہے وہ ہے ورکرز کے بجائے لیڈران کی تعداد میں اضافہ یہ شائید واحد سیاسی پارٹی ہے جس میں ورکرز کم اور لیڈران زیادہ ہیں اور پارٹی کے کام کرنے کے بجائے وہ سٹیج پر براجمان ہونا ضروری سمجھتے ہیں ،ان میں تو بعض ایسے بھی ہیں جن کو اپنی یوسی کی وارڈوں کا بھی مکمل طور پر پتہ نہیں ہے لیکن تحریک انصاف میں آنے کے بعدوہ ایسے دعوے کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ،، اللہ کی امان ،بہر صورت یہ پارٹی کا اپنا مسلہ ہے لیکن اب کلر سیداں کی سیاست میں اپنی اور پارٹی کی مضبوطی کے لیے ملک سہیل اشرف اور راجہ ساجد جاوید کو مل کر کام کرنا ہو گااگر وہ ایسا کر گے تو یقیناًان کا نام کلرسیداں کی سیاست میں ایک مقام بنا جائے گا،اس ہفتہ کی دوسری بڑی خبر جو گردش میں ہے وہ ہے چوہدری نثار کی تحریک انصاف میں شمولیت کا امکان یہ خبر سچی ہے یا جھوٹی یہ بعض کی بات ہے لیکن عوامی حلقوں میں اس کو ہر جگہ زیربحث لایا جا رہا ہے تو دوسری جانب جانثاران چوہدری نثار علی خان ان کی پارٹی بدلنے کی خبروں سے پریشان نظر آتے ہیں توتحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑنے والے کرنل اجمل صابر راجہ اور غلام سرور خان بھی اس کی وجہ گومگو کا شکار نظر آتے ہیں اگر یہ خبر سچ ہو جاتی ہے یاتحریک انصاف چوہدری نثار کے آزاد آنے کی صورت اس کو سپورٹ کرتی ہے تو اس کو مقامی ورکرز کی جانب سے شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ،تو اس کو خان سرور خان اور کرنل اجمل صابر راجہ کی جارحانہ سیاست کا سامنا کر نا پڑ سکتا ہے کیونکہ غلام سرور خان چوہدری نثار کے سیاسی حریف ہیں اوروہ کسی صورت بھی اس چیز کو قبول نہیں کریں گے کہ وہ اور چوہدری نثار ایک ہی چھتری کے تلے کھڑے ہوجائیں تو گزشتہ الیکشن میں سیاسی حوالہ سے نومولود ہونے کے باوجود چوہدری نثار کے خلاف شاندار پرفارمنس دینے والے کرنل اجمل صابر راجہ کا بھی کوئی نہ کوئی رد عمل سامنے آسکتا ہے ،کیونکہ وہ الیکشن کے بعد سے لیکر اب تک اپنے حلقہ میں ورک کرتے نظر آئے بہر صورت ان تمام معامالات کا رزلٹ چند روز میں سامنے آجائیں گے
کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس اپ رائے دیں0321855084
169