اللہ رب العزت نے کائنات سجانے اور اس میں مخلوقات کو وجود بخشنے کہ بعدانسان کو اشرف المخلوقات ہونے کا اعزازی لقب عطا فرمایا انسان کودیگرمخلوقات پرفوقیت وفضیلت دیکر،برتری والا مقام ومرتبہ عطا فرمایا اس انسان کی پیدائش سے قبل رب العالمین نے فرشتوں سے انسان کے بنانے کامقصدظاہرکیاتو فرشتوں نے انسان کی تخلیق سے قبل ہی رب العالمین سے دست بدستہ عرض کی تھی کہ ایاحکم الحاکمین،اے مالک الملک،شہنشاہ دوجہاں،خالق تخلیق کائنات، مالک ارض و سماء،احد وبے نیاز،لامحدود صفات و اختیارات کے مالک ہم تیری بارگاہ میں نہایت عاجزی و انکساری،تعظیم و تکریم محبت وعقیدت سے عزت واحترام سے عاجزی وانکساری سے دست بدستہ عرض گزارہیں کہ انسان کو نا بناہم تاقیامت تیری بارگاہ میں سجدہ ریزہوجاتے ہیں ایک پل بھی تیری نافرمانی کا تصور ذہن میں نہیں آنے دیں گئے بس تو انسان کو نا بنا ورنہ یہ تیری نافرمانی کرے گا قتل و غارت کا بازار گرم کریگا‘گناہوں کابوجھ اٹھائے پھرتارہے گا‘خون ریزی میں مشغول رہے گا۔اللہ نے فرشتوں سے فرمایا کہ اے فرشتو جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے لہذا میں انسان کو بناؤں گاپھرساتھ ہی انسان کہ بنانے کا مقصدبھی واضح کردیا بیشک انسان کائنات کا سرتاج ہے انسان کہ بغیر کائنات کا حسن ادھورا ہے بشرطیکہ وہ صاحبِ ایمان اورعملِ صالح پر کاربند ہواگر یہ ایسا کریگاتو دیگر مخلوقات سے افضل ہونے کیساتھ ساتھ مقام ومرتبہ کہ اعلی درجے پر بھی فائزہوگاچنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہیاور میں نے جن اور انسان کو چاسی لئے پیدا کیاہے کہ وہ میری عبادت کریں انبیاء کرام علیہم السلام نے بھی اپنی اپنی قوموں کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت و عبادت کی دعوت دی تھی حتیٰ کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآنِ کریم کو نازل فرمایااپنے پسندیدہ دین دین اسلام کی تکمیل فرمائی اور اپنے آخری نبی تاجدارختم نبوت سردار دوجہاں حضرت محمد رسول اللہ کو مبعوث فرمایا تو اپنی کتابِ آخری قرآنِ کریم میں یہ اعلان فرما دیا کہ جن و انس کی تخلیق کی غرض وغایت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو اپنے رب یعنی پروردگار کی حیثیت سے پہچانیں اور صرف اسی کی عبادت کریں اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اسکے احکام کی نافرمانی سے باز رہیں دین اسلام پر چل کر اپنی زندگی گزاریں اور انسان وجنات کی تخلیق کا مقصدِ وحید ہی عبادت قرار پایا ہے جیسا کہ سورۃ الذاریات کی آیت56 میں ارشادِ الٰہی ہے اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں ہر انسان جو عاقل وبالغ اور صاحبِ ہوش و خردہے اس پر واجب ہے کہ وہ اپنے نفس سے سوال کرے اپنے ضمیر کو ٹٹولے اور اپنے گریبان میں جھانکے بلکہ اپنے من میں ڈوب کر ”سراغِ زندگی پا جانیکی کوشش کرے اور اس کیلئے اپنے آپ سے پوچھے میں اس دنیا میں کیوں پیدا کیا گیا ہوں اس زمین پر میری ڈیوٹی کیا ہے؟مجھے ساری کائنات سے ممتاز کیوں بنایا گیا ہے؟ انسان کی فوقیت و برتری اور ممتاز مقام کا ثبوت توخود قرآنِ کریم میں مذکور ہے۔یہ شرف و فضیلت اور یہ حیثیت ہر انسان کو حاصل ہے چاہے مومن ہو یا کافرکیونکہ یہ شرف دوسری مخلوقات‘حیوانات‘جمادات اور نباتات وغیرہ کے مقابلے میں ہے اور یہ شرف متعدد اعتبار سے ہے۔جس طرح کی شکل وصورت‘ قدو قامت اور ہیئت اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا کی ہے وہ کسی دوسری مخلوق کو حاصل نہیں۔ جب بحیثیت انسان چاہے مسلم ہو یا کافر اسے بہت سی مخلوقات پر فضیلت وبرتری اور فوقیت و امتیاز حاصل ہے تو جب یہی انسان نہ
صرف محض کلمہ گو مسلمان بلکہ باعمل مومن ہو تو اپنے ایمان و عمل اور اللہ تعالیٰ کی عنایت سے وہ تمام مخلوقات حتیٰ کہ فرشتوں سے بھی بالاتر ہو جاتا ہے جس کا واضح ثبوت اسراء و معراجِ مصطفی کی جزئیات پر غور کرنے ہی سے مل جاتا ہے۔انسان اس پوری کائنات کا سرتاج ہے بشرطیکہ مکمل انسان‘صاحبِ ایمان اور ساتھ ہی ساتھ عملِ صالح پر کاربند ہو‘ اگر یہ محنت و عبادت کرنیوالا ہے توفرشتوں سے بھی افضل ہوجائے گا۔غرض انسان کو چاہیے کہ اس فوقیت وبرتری اور امتیاز کا سبب تلاش کرے، اپنی تخلیق و پیدائش کا مقصد ڈھونڈے اور اپنی ڈیوٹی و ذمہ داری کا سراغ لگائے اہلِ ایمان وعمل کو تو اس کا جواب معلوم ہوتا ہے اور وہ جانتے ہیں کہ ہر صانع کو اپنی مصنوعات کے بھید معلوم ہوتے ہیں کہ اس نے انھیں اس شکل و صورت میں کیوں تیار کیا ہے؟ انسان کا صانع یا خالق یعنی اس کا پیدا کرنے والا اور اس کے تمام امور ومعاملات کی تدبیر کرنیوالاچونکہ خود اللہ تعالیٰ ہے لہٰذا اگر ہم یہ سوچیں کہ اللہ نے ہمیں صرف کھانے پینے کیلئے بنایاہے کیا اس کی تخلیق کا مقصدصرف لہو ولعب اورکھیل کود ہی ہے؟کیا اسے محض اس لئے وجود میں لایا گیا ہے کہ زمین پر چلے پھرے اور زمین سے پیدا ہونے والی تمام اشیا کو بے دریغ استعمال کرے اور پھر مر کر مٹی ہو جائے اور قصہ ختم؟تو یقیناًنہیں ہر گز نہیں ایسا بلکل بھی نہیں ہے بلکہ اللہ رب العزت نے مسلمان مومن کی صفات قرآن مجید میں بیان کردیں ہیں اور جب انسان کو بنایاتواسکی کمزوری سے بھی واقف ہے انسان کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ نیکی کہ مقابلہ میں گناہ کی طرف جلدی سے مائل ہوجاتاہے وہ گناہ کرنے کہ بعد سوچتاہے جب اسکو احساس ہوتاہے کہ میں نے جرم کرلیا ہے تو اللہ رب العزت نے اس انسان کو بتلایا ہے کہ اگر رب کی دھرتی پر گناہ ہوجائے تو فوراً توبہ تائب ہوجاو اپنی غلطی پر نادم ہوکر رجوع الی اللہ کرلو اللہ گناہ معاف کردیگا اگرچہ گناہ پہاڑ کی مانند ہودنیامیں سب سے نرم‘ شفقت و مہربانی‘ احساس ہمدردی والا دل اللہ نے ماں کا بنایا فرمایا ایک ماں تو کیا اللہ 70 ماؤں سے بڑھ کر انسان سے پیار بھی کرتا ہے اور اسکی توبہ قبول کرتا ہے بشرطیکہ وہ انسان سچے دل سے اللہ کی بارگاہ میں توبہ تائب ہو تو پھر دیر کس بات کی آج ہی اپنے رب کہ سامنے بے بسی‘ندامت‘شرمندگی وعاجزی کا اظہار کرتے ہوئے ہمیں فوراً لوٹ آنا چاہیے اس سے پہلے کہ زندگی کی شام ڈھل جائے ہمیں توبہ کی توفیق ناملے اور افسوس اور پچھتاوے کہ سواہمیں کچھ حاصل ناہو
360