پروفیسر محمد حسین/انسان کی اصل اس کا نفس یعنی روح ہی ہے اس کا موجودہ جسم صرف عالم ظاہر سے رابطہ کا ایک ذریعہ ہے جہاں تک نفس اور روح میں کیا فرق ہے ان میں سے اولین روح ہے اور زندگی کے اعمال اور ماحول کے زیراثر جو شخصیت بنتی ہے عالم امر میں جسم کے بغیروہ روح ہے اور عالم شہادت میں جب اسے جسم میں مل جاتا ہے تو اس کو نفس کہا جاتا ہے یہ ایسے ہی ہے جیسے پانی ایک حالت بخارات ہے دوسری مائع اور تیسری ٹھوس حالت ہے بخارات کی حالت میں یہ آزاد ہر طرف اڑتا پھرتا ہے لیکن مائع کی حالت میں اپنے وجود کو قائم رکھنے کے لیے اسے کوئی برتن چاہیے اور منجمد حالت میں وہ ٹھوس ہو جاتا ہے قرآن کریم میں ہماری روحانی شخصیت کے لیے ہمیشہ نفس کی اصلاح کرتا ہے اس لیے کہ دنیا پر اعمال کے بوجھ کی بنا پر روح کی شکل بدلی جاتی ہے اتنا ہی کہنا کافی ہو گا کہ اس دنیا میں آنے سے پہلے ہم سب عالم ارواح میں موجود تھے وہاں سے ہر انسان اپنے اپنے وقت پر عالم دنیا پر ظاہر ہوتا رہتا ہے وہاں ہماری زندگی کیسی تھی؟ اس کی یاداشت پیدائش کے حادثہ پر ہم کھو دیتے ہیں رسول پاک ؐ نے فرمایا جو نفوس وہاں ایک دوسرے کے نزدیک ہوتے ہیں وہ اس دنیا میں بھی اپنے درمیان ایک فطری محبت رکھتے ہیں یعنی وہاں کی اپنی بھرپور معاشرت ہے شائید آپ کا اپنا تجربہ بھی ہو کہ بعض اوقات کسی سے زندگی میں پہلی بار ملتے ہیں لیکن ایسے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیشہ سے جانتے تھے اور بعض لوگوں سے جو بلاوجہ دوری محسوس ہوتی ہے یہ عالم ارواح میں باہمی تعلق کی یادوں کی وجہ سے ہوتا ہے یہ بات قابل غور ہے کہ اس دنیا میں مختلف انسانوں کے درمیان جو فطری امتیاز نظر آتے ہیں وہ دراصل عالم ارواح سے ہی چلے آرہے ہیں مثلا اللہ کے نبی وہاں بھی تھے اور دنیا میں اپنی پیدائش پر بھی نبی ہوئے خاتم النبین ؐ کے آنے کا یہ مطلب ہے کہ اب عالم ارواح میں کسی نبی کانفس باقی نہیں رہا وہ سب دنیا سے گزر کر عالم آخرت میں جا چکے ہیں جب انسان ارضی دنیا میں داخل ہو تا ہے تو ارضی اسباب سے رابطہ کے لیے اسے مادی جسم کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے جیسے ہی کسی روح کے دنیا میں آنے کا حکم ہوتا ہے ماں کے پیٹ میں اس کے جسم کا انتظام ہونا شروع ہو جاتا ہے اس دنیا سے اگلی منزل کا نام عالم قبور یا عالم برزخ ہے وہاں برزخ کے سفر کا سارا انحصار اس رخ اور مقام پر مبنی ہے جس پر ہم دنیا کو چھوڑ یں گے اب ہمارے سامنے موت سے روز حشر تک کا طویل عرصہ ہے جنھوں نے اپنی زندگی کو اللہ کے بتائے ہوئے راستے کے علاوہ کسی اور دلچسبی میں گزاردیا ان کے لیے یہ اربوں کروڑوں سالوں کا عرصہ ممکنہ نتائج کے خوف کی وجہ سے نہایت ہی مایوس کن اور پریشانی کا ہو گا تیسرے مرحلے کا آغاز کائنات کی قیامت سے ہو گا اس میں حشر نشر اور حساب کتاب بھی ہو گا جو عالم آخر کی ابتداء ہیں اس کے بعد خوش قسمت لوگ جنت میں جائیں گے اور کچھ بے چارے جہنم میں جائیں گے اور کچھ مقام اعراف پر منتظر ہوں گے اللہ تعالیٰ کی بے انتہا رحمت کے پیش نظر ہم کہہ سکتے ہیں کہ جہنم بھی دراصل انسانوں کو عبرت دلانے اور پاک وصاف کرنے کا ایک ذریعہ بنے گا اس کی ذات پاک رحیم و کریم ہے اس نے اپنے لیے لکھ لیا ہے کہ اس کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے چنانچہ اس کی رحمت دوزخ کی آگ کو بھی ٹھنڈا کر سکتی ہے جوں جوں گناہوں کی غلاظت اور آلودگی جل کر ختم ہو جائے گی تو اللہ اپنے حکم سے لوگوں کو عالم اعراف میں بھیج دیں گے اور وہاں سے ترقی پا کر جنت میں داخل ہو ں گے اللہ تعالیٰ کے آخری نبی پاک ؐکی ایسی بھی احادیث ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ آخرکار جہنم کے دروازے بھی کھول دئیے جائیں گے لیکن سزا کی یہ مدت کتنے ارب اور کھرب سال ہو گی کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن اللہ کے باغی مشرکین ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم کا ایندھن بن کر جلتے رہیں گے دنیا میں ہمارے قیام کا وقفہ آزمائش کا وقت ہے جس میں ہر انسان کو اپنی صلاحیتوں کو آزمانے اور پڑھانے کا موقع دیا جاتا ہے تاکہ احسن اعمال والے بد اعمال والوں سے الگ ہو جائیں آنے والی ممکنہ خوشیوں کے حصول اور مایوسیوں سے بچنے کا طریقہ یہی ہے کہ موجودہ زندگی سے زیادہ سے زیادہ فائد ہ اٹھا یا جائے جس کے لیے ضروری ہے کہ ایک تو زندگی کا رخ ٹھیک ہو دوسرے عمل ٹھیک ہوں اگلے جہان میں ہمارے مقام کا دارو مدار اس کیفیت پر جس پر ہم دنیا کو چھوڑتے ہیں اس لیے یہاں کا قیام ہماری زندگی کا قیمتی ترین حصہ ہے اور یہ سنہری موقع ہے کہ انسان اپنے نفس کی بالیدگی کے لیے محنت کرے یہاں کی دو رکعت نماز وہاں کے لاکھوں سال کی عبادت پر بھاری ہے اس سلسلہ میں قرآن پاک ہماری صحیح رہنمائی کرتا ہے اگر ہم اس کے اوامر و نواہی سے روگردانی کریں گے تو ہم اپنے نفس کو اسفل ساملین سے اٹھا نہیں سکتے اسی دلدل میں پھنسے رہیں گے اللہ تعالیٰ سے غفلت،دنیاوی فوائد کی کثرت کی بھوک،فرائض سے چشم پوشی اور برائی سے رغبت یہ سب چیزیں نفس کی ترقی کے لیے زہر قاتل ہیں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ ان آلائشوں کو دھونے کے لیے جہنم میں کتنے کھرب سال رہنا پڑے انسان کے فطری مراتب کا حال یہ ہے کہ اللہ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے کہ ہم نے بنی آدم کو عزت و تکریم عطا کی ہے اس میں مومن اور کافر کی کوئی تفریق نہیں اپنی پیدائش میں سبھی احسن التقویم ہیں سبھی کو اسفل السافلین سے اٹھ کر ہی مقام علین کو پانا ہے افسوس کہ شیطان کی دوستی میں انسان اپنے ان اعلیٰ مدارج اور مراتب کا تحفظ نہیں کر پاتا اسی لیے اللہ تعالیٰ قرآن حکیم میں انسان اصل میں کیا چیز ہے؟
پروفیسر محمد حسین/انسان کی اصل اس کا نفس یعنی روح ہی ہے اس کا موجودہ جسم صرف عالم ظاہر سے رابطہ کا ایک ذریعہ ہے جہاں تک نفس اور روح میں کیا فرق ہے ان میں سے اولین روح ہے اور زندگی کے اعمال اور ماحول کے زیراثر جو شخصیت بنتی ہے عالم امر میں جسم کے بغیروہ روح ہے اور عالم شہادت میں جب اسے جسم میں مل جاتا ہے تو اس کو نفس کہا جاتا ہے یہ ایسے ہی ہے جیسے پانی ایک حالت بخارات ہے دوسری مائع اور تیسری ٹھوس حالت ہے بخارات کی حالت میں یہ آزاد ہر طرف اڑتا پھرتا ہے لیکن مائع کی حالت میں اپنے وجود کو قائم رکھنے کے لیے اسے کوئی برتن چاہیے اور منجمد حالت میں وہ ٹھوس ہو جاتا ہے قرآن کریم میں ہماری روحانی شخصیت کے لیے ہمیشہ نفس کی اصلاح کرتا ہے اس لیے کہ دنیا پر اعمال کے بوجھ کی بنا پر روح کی شکل بدلی جاتی ہے اتنا ہی کہنا کافی ہو گا کہ اس دنیا میں آنے سے پہلے ہم سب عالم ارواح میں موجود تھے وہاں سے ہر انسان اپنے اپنے وقت پر عالم دنیا پر ظاہر ہوتا رہتا ہے وہاں ہماری زندگی کیسی تھی؟ اس کی یاداشت پیدائش کے حادثہ پر ہم کھو دیتے ہیں رسول پاک ؐ نے فرمایا جو نفوس وہاں ایک دوسرے کے نزدیک ہوتے ہیں وہ اس دنیا میں بھی اپنے درمیان ایک فطری محبت رکھتے ہیں یعنی وہاں کی اپنی بھرپور معاشرت ہے شائید آپ کا اپنا تجربہ بھی ہو کہ بعض اوقات کسی سے زندگی میں پہلی بار ملتے ہیں لیکن ایسے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیشہ سے جانتے تھے اور بعض لوگوں سے جو بلاوجہ دوری محسوس ہوتی ہے یہ عالم ارواح میں باہمی تعلق کی یادوں کی وجہ سے ہوتا ہے یہ بات قابل غور ہے کہ اس دنیا میں مختلف انسانوں کے درمیان جو فطری امتیاز نظر آتے ہیں وہ دراصل عالم ارواح سے ہی چلے آرہے ہیں مثلا اللہ کے نبی وہاں بھی تھے اور دنیا میں اپنی پیدائش پر بھی نبی ہوئے خاتم النبین ؐ کے آنے کا یہ مطلب ہے کہ اب عالم ارواح میں کسی نبی کانفس باقی نہیں رہا وہ سب دنیا سے گزر کر عالم آخرت میں جا چکے ہیں جب انسان ارضی دنیا میں داخل ہو تا ہے تو ارضی اسباب سے رابطہ کے لیے اسے مادی جسم کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے جیسے ہی کسی روح کے دنیا میں آنے کا حکم ہوتا ہے ماں کے پیٹ میں اس کے جسم کا انتظام ہونا شروع ہو جاتا ہے اس دنیا سے اگلی منزل کا نام عالم قبور یا عالم برزخ ہے وہاں برزخ کے سفر کا سارا انحصار اس رخ اور مقام پر مبنی ہے جس پر ہم دنیا کو چھوڑ یں گے اب ہمارے سامنے موت سے روز حشر تک کا طویل عرصہ ہے جنھوں نے اپنی زندگی کو اللہ کے بتائے ہوئے راستے کے علاوہ کسی اور دلچسبی میں گزاردیا ان کے لیے یہ اربوں کروڑوں سالوں کا عرصہ ممکنہ نتائج کے خوف کی وجہ سے نہایت ہی مایوس کن اور پریشانی کا ہو گا تیسرے مرحلے کا آغاز کائنات کی قیامت سے ہو گا اس میں حشر نشر اور حساب کتاب بھی ہو گا جو عالم آخر کی ابتداء ہیں اس کے بعد خوش قسمت لوگ جنت میں جائیں گے اور کچھ بے چارے جہنم میں جائیں گے اور کچھ مقام اعراف پر منتظر ہوں گے اللہ تعالیٰ کی بے انتہا رحمت کے پیش نظر ہم کہہ سکتے ہیں کہ جہنم بھی دراصل انسانوں کو عبرت دلانے اور پاک وصاف کرنے کا ایک ذریعہ بنے گا اس کی ذات پاک رحیم و کریم ہے اس نے اپنے لیے لکھ لیا ہے کہ اس کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے چنانچہ اس کی رحمت دوزخ کی آگ کو بھی ٹھنڈا کر سکتی ہے جوں جوں گناہوں کی غلاظت اور آلودگی جل کر ختم ہو جائے گی تو اللہ اپنے حکم سے لوگوں کو عالم اعراف میں بھیج دیں گے اور وہاں سے ترقی پا کر جنت میں داخل ہو ں گے اللہ تعالیٰ کے آخری نبی پاک ؐکی ایسی بھی احادیث ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ آخرکار جہنم کے دروازے بھی کھول دئیے جائیں گے لیکن سزا کی یہ مدت کتنے ارب اور کھرب سال ہو گی کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن اللہ کے باغی مشرکین ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم کا ایندھن بن کر جلتے رہیں گے دنیا میں ہمارے قیام کا وقفہ آزمائش کا وقت ہے جس میں ہر انسان کو اپنی صلاحیتوں کو آزمانے اور پڑھانے کا موقع دیا جاتا ہے تاکہ احسن اعمال والے بد اعمال والوں سے الگ ہو جائیں آنے والی ممکنہ خوشیوں کے حصول اور مایوسیوں سے بچنے کا طریقہ یہی ہے کہ موجودہ زندگی سے زیادہ سے زیادہ فائد ہ اٹھا یا جائے جس کے لیے ضروری ہے کہ ایک تو زندگی کا رخ ٹھیک ہو دوسرے عمل ٹھیک ہوں اگلے جہان میں ہمارے مقام کا دارو مدار اس کیفیت پر جس پر ہم دنیا کو چھوڑتے ہیں اس لیے یہاں کا قیام ہماری زندگی کا قیمتی ترین حصہ ہے اور یہ سنہری موقع ہے کہ انسان اپنے نفس کی بالیدگی کے لیے محنت کرے یہاں کی دو رکعت نماز وہاں کے لاکھوں سال کی عبادت پر بھاری ہے اس سلسلہ میں قرآن پاک ہماری صحیح رہنمائی کرتا ہے اگر ہم اس کے اوامر و نواہی سے روگردانی کریں گے تو ہم اپنے نفس کو اسفل ساملین سے اٹھا نہیں سکتے اسی دلدل میں پھنسے رہیں گے اللہ تعالیٰ سے غفلت،دنیاوی فوائد کی کثرت کی بھوک،فرائض سے چشم پوشی اور برائی سے رغبت یہ سب چیزیں نفس کی ترقی کے لیے زہر قاتل ہیں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ ان آلائشوں کو دھونے کے لیے جہنم میں کتنے کھرب سال رہنا پڑے انسان کے فطری مراتب کا حال یہ ہے کہ اللہ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے کہ ہم نے بنی آدم کو عزت و تکریم عطا کی ہے اس میں مومن اور کافر کی کوئی تفریق نہیں اپنی پیدائش میں سبھی احسن التقویم ہیں سبھی کو اسفل السافلین سے اٹھ کر ہی مقام علین کو پانا ہے افسوس کہ شیطان کی دوستی میں انسان اپنے ان اعلیٰ مدارج اور مراتب کا تحفظ نہیں کر پاتا اسی لیے اللہ تعالیٰ قرآن حکیم میں فرماتا ہے کہ ”انسان گھاٹے میں ہے ماسوائے ان کے جو ایمان لائے نیک عمل کیے اور آپس میں صبر اور اچھائی کی تلقین کرتے رہے“۔
فرماتا ہے کہ ”انسان گھاٹے میں ہے ماسوائے ان کے جو ایمان لائے نیک عمل کیے اور آپس میں صبر اور اچھائی کی تلقین کرتے رہے“۔
292