413

انسانی رویوں کے اثرات

شاہد جمیل منہاس/منفی یا مثبت رویے روزمرہ گھریلو زندگی سے لیکر دفتر اور پھر کسی ملک کی ترقی یا تنزلی کا سبب بنتے ہیں۔ جس طرح منفی رویے دوستی اور اچھے ماحول کے راستے میں زہر قاتل کی حیثیت رکھتے ہیں بالکل ایسے ہی اقوام کو تباہ و برباد کردیا کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ زبان کی مٹھاس دوستی اور باہم رشتوں کو مضبوط کرتے کرتے پڑوسی ممالک سے لیکر پوری دنیا میں کسی ملک یا قوم کو مقبول کر دیا کرتی ہے۔ بشرطیکہ سیاسی رہنماؤں اور حکمرانوں کے رویے میں مٹھاس اور اپنائیت کا عنصر غالب ہو۔ بے شمار جنگیں حکمرانوں کے غلط بیانات کی وجہ سے ہوئیں اور قومیں جنگ و جدل کی وادی میں دھنس کر رہ گئیں۔ اس کے برعکس دوسرے کے خون کی دشمن قومیں اور ممالک حکمرانوں کے مثبت رویے اور زبان کی مٹھاس کی وجہ سے ایک ہو گئیں۔ رویہ خاموش رہ کر بھی ظاہر ہو جایا کرتا ہے۔ لیکن اس کو ماپنے کیلئے کوئی پیمانہ فی الحال موجود نہیں ہے۔ لیکن رویہ زبان پر آنے کیلئے تڑپ رہا ہوتا ہے اور زبان پر آ کر ہی دم لیتا ہے۔ غلط رویے اور غلط سوچ کے افراد کی زبان گندگی پھینکتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ ایک دفعہ ہوا یوں پاکستان کے ایک معروف کالج گورنمنٹ کالج اصغر مال راولپنڈی جانے کا اتفاق ہوا۔ میں وہاں پر بیٹھا ہواتھا کہ اچانک ایک خاتون آئی اور علامہ اقبال اوپن یو نیورسٹی کے ایک قابل احترام کوا ٓرڈینیٹر چوہدری فاروق اور پروفیسر غضنفر محمود بھٹی صاحب بھی وہاں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اس خاتون نے نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ فوراً بولی اور کہنے لگی کہ رجسٹر مجھے دیں میں حاضری لگاؤں۔ اس نے تین گھنٹے پہلے آنا تھا اور محترمہ چھٹی کے وقت آئیں اور خانہ پری کیلئے حاضری لگانا چاہتی تھیں۔ ہم سب بہت حیران ہوئے اور سب نے اسے کہا کہ یہ کون سا طریقہ ہے کہ آپ اپنے اساتذہ کے سامنے چیخ چیخ کر بول رہی ہیں اور ساتھ یہ بھی فرما رہی ہیں کہ میں F/10 سے آ رہی ہوں۔ میں نے دیکھا کہ وہ اسلام آباد میں رہائش پذیر ہونے کی دھمکی دے رہی تھی۔ اسے کیا پتہ کہ اسلام آباد کی کچی آبادی میں بھی لوگ رہتے ہیں اور بغیر گھروں کے جنگلوں میں راتیں گزارنے والے بھی ہیں۔ چوہدری فاروق صاحب نے حاضری نہیں لگانے دی اور وہ فورا ً کمرے سے بھاگ کر چلی گیئں۔ یا شاہد کلاس روم میں۔میں نے اس خاتون کا رویہ دیکھا جو 45 سال کی عمر میں ایم اے کرنے کی کوشش کر رہی تھی اور 2 کلو لپ سٹک لگا رکھی تھی۔ لیکن رہتی وہ اسلام آباد میں تھی۔ اسے کیا پتہ کہ پڑھا لکھا ہونے کیلئے کتابوں کی بوریا ں نہیں بلکہ انسانیت اور مثبت رویے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور اگر رویہ منفی اور سوچ غلیظ ہے تو ایسا انسان دنیا میں اکیلا رہ جایا کرتا ہے اور سب رشتے ایک ایک کر کے اسے چھوڑ جاتے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ پروفیسر غضنفر محمود بھٹی اور چوہدری فاروق صاحب کو اس کے رویے سے بہت دکھ ہوا اور پروفیسر صاحب مجھے کہنے لگے کہ شاہد صاحب سیاست اوردیگر موضوعات پر تو آپ لکھ ہی رہے ہیں، میری خواہش ہے کہ انسانی رویوں پر بھی لکھیں اور خاص طور پر اس منظر کو عیاں کریں جو آپ نے ابھی اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا ہے۔ یاد رہے کہ پروفیسر غضنفر محمود بھٹی صاحب معاشیات کے ایک بہترین استاد اور ماہر ِ معاشیات ہیں۔مجھ جیسے ہزاروں لکھاری ان کے شاگردوں میں شمار ہوتے ہیں۔ مجھے تو خاص طور پر ان کی سادگی اور سچا اور کھرا پن بہت پسند ہے۔ اللہ ان کو بہترین صحت کے ساتھ لمبی اور خوشیوں بھری زندگی عطا فرمائے ۔ گپ شپ کے ساتھ رویہ منسلک رہا۔ انسانیت مثبت رویے کے بغیر ایسے ہے کہ جیسے کوئی انسان سینے میں پتھر لیکر گھوم رہا ہو نہ کہ دل۔ سب سے پہلا رشتہ جو منفی رویے کی زد میں آ تا ہے وہ ہے والدین کا رشتہ۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک پر بار بار اسلام میں زور دیا گیا ہے۔اور کہا گیا ہے کہ والدین کے سامنے اف تک نہ کرو۔ اگروالدین اپنی اولاد میں سے کسی کے غلط رویے کی وجہ سے پریشان ہیں تو اللہ ایسی اولاد کو ناکامیوں کے سوا کچھ نہیں دیتا۔اور جو شخص اپنے اساتذہ کا احترام نہیں کر سکتا وہ والدین کا احترام کرنے والا ہو ہی نہیں سکتا۔ خاص طور پر عورت کے حوالے سے یہاں تک کہہ دیا گیا ہے کہ اس کی آواز نا محرم تک بھی نہ پہنچے۔اللہ سب کی اولاد کو ادب اور بیٹیوں کو حیاء نصیب کرے تاکہ جہاں جہاں سے گزریں والدین کیلئے صدقہ جاریہ بن جائیں۔ جب منفی رویے سے والدین جیسا جان نچھاور کرنے والا رشتہ تباہ ہو جاتا ہے تو باقی رشتے کیا حیثیت رکھتے ہیں۔ یعنی منفی رویے سے رشتے ٹوٹ ٹوٹ کر ختم ہو جایا کرتے ہیں اورمثبت رویے سے انسان کے اردگرد نیک تمناؤں اور دعاؤں کا سایہ کرنے والے رحمت بن کر ابھرتے ہیں۔ بچپن میں پہلی جماعت سے لیکر آٹھویں تک عقل کی بیساکھی کے بغیر چلنا پڑتا ہے۔ لیکن والدین کی اچھی تربیت اساتذہ کرام کو نظر آجایا کرتی ہے اور وہ دعائیں دیا کرتے ہیں۔ جب عقل اپنے عروج پر ہوتی ہے تو معلوم ہوتا ہے تو والدین اور اساتذہ کی دعائیں کتنا بڑا سرمایہ ہیں۔ جب ہم پڑھ لکھ کر کالج یا یونیورسٹی سے فارغ ہوتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ منفی رویوں کے حامل طلباء اور طالبات ذہین ہونے کے باوجود دنیا میں بھی ذلیل ہوتے اور بڑھاپے کی د ہلیز پر بھی ذلالت اور رسوائی ان کا مقدر ٹھہرتی ہے۔ کیونکہ جوانی کے زور سے انھوں نے زمانے کو دبوچنے کرنے کی کوشش کی لیکن زمانہ جو سب کا استاد ہوتا ہے بتا دیتا ہے کہ عقل ناقص ہے اور اللہ کا فضل و کرم ہی سب کچھ ہے۔عاجزی میں کامیابی،تکبر میں ناکامی، سچ میں خوشی، جھوٹ میں پریشانی،صبر میں برکت، غصے میں نقصان، گناہ میں بیماری اوراستغفار میں شفاء ہے۔اپنے خیالات کی حفاظت کریں کیونکہ یہ خیالات الفاظ بن جاتے ہیں پھر یہ الفاظ اعمال بن جاتے ہیں۔ اپنے اعمال کی حفاظت کریں کیونکہ یہ اعمال عادت بن جاتے ہیں اور اپنی عادتوں کی حفاظت کریں کیونکہ یہ عادتیں کردار بن جاتی ہیں اوراپنے کردار کی حفاظت کریں کیونکہ یہ کردار آپ کی قسمت اور نصیب بن جاتا ہے اور آپ کی قسمت اورنصیب سے ہی آپ کی دنیا اورآخرت کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ ہوتا ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں