بارہ گھنٹے کام کی تھکان ،ہلکی ہلکی ٹھنڈ ،بستر پہ جاتے ہی جانے کب آنکھ لگ گئی کوئی ہوش نہیں تھا ،، موبائیل کی گھنٹی مسلسل بجنے لگی اور میری آنکھ کھل گئی ۔ رات کے دو بج رہے تھے ،بوجھل آنکھوں سے دیکھا تو سرفراز مسلسل کال کررہا تھا ۔ ’’صدیقی صاحب ، صدیقی صاحب سوری آپ کو اس وقت ڈسٹرب کیا ، میں کل والی بات پہ آپ سے سوری کرتا ہوں ، مجھے احساس ہوا کہ میں آپ سے غلط بول گیا ، آپ سے بدتمیزی سے بات کی ، میں آپ کی بہت عزت کرتا ہوں ، میں جو کچھ ہوں آپ کا اس میں بہت حصہ ہے ، پھر بھی مجھ سے غلطی ہوگئی مجھے معاف کردیجیے گا‘‘میرے بھائی کل تم نے میرے آفس آنا تھا ، کل بتا دیتے ،کیا تم نے صرف یہ بتانے کے لیے رات دو بجے فون کیا؟ سب کی نیند بھی خراب کی اور ایک غلطی کی معافی کے لیے ایک اور غلطی ’’مجھے معلوم ہے کہ رات کے اس پہر کسی کو ایسے کال کرنا سخت بداخلاقی ہے لیکن اس وقت کال کرنے کی بھی ایک وجہ ہے ، میں نے کہا ایک تو غلطی کر رہے ہو اور اوپر سے جسٹی فائی کرنے کی کوشش بھی کر رہے ہو، غصہ میں فون بند کر کے سونے کی ناکام کوشش کرنے لگا۔لیکن خوابیدہ آنکھیں کھلی آنکھوں سے خواب دیکھے بنا بند نہیں ہو سکتیں ،باقی رات کروٹیں بدلتے بدلتے گزر گئی ۔ اگلی صبح میں ابھی دفتر میں چائے پی رہا تھا اور بے چینی سے اخبارکے صفحات پلٹ رہا تھا ، میری آنکھوں میں ابھی تک رت جگا اور آنکھیں بھاری تھیں اور خیالوں میں ابھی تک فون کی گھنٹیاں بج رہی تھیکہ سرفراز مجھے آتا دکھائی دیا ۔’’ صدیقی صاحب مجھے معلوم ہے کہ آپ کو میری رات والی حرکت اچھی نہیں لگی، میں رات سونے سے پہلے اپنا محاسبہ ضرور کرتا ہوں ، اپنی دن کی تمام روٹین کو ریورس کرتا ہوں کہ میرا دن کیسا گزرا ؟ کیا میری وجہ سے کسی کو کوئی دکھ تو نہیں پہنچا ، کس سے وعدہ کیا ، حلال کمایا یا حرام ؟ صدیقی صاحب پانچ بہنوں میں میرا آخری نمبر ہے والدین نے مجھے نازو نعم سے پالا ، میری ہر جائز و ناجائز خواہش کو اپنا پیٹ کاٹ کر پورا کیا ، والدین مجھے پڑھانا چاہتے تھے لیکن میں دیکھتا تھا کہ اردگرد کے لوگ باہر کے ملک میں اچھا کما رہے ہیں اور کچھ خاص پڑھے لکھے بھی نہیں ،میں نے والد سے کہا کہ مجھے میری تعلیم کے مطابق اپنے ملک میں کوئی جاب نہیں ملے گی ، بہتر ہے کہ میں وقت ضائع کیے بغیر باہر چلا جاؤں ، میرے والد اور والدہ میرے اس فیصلے پر دکھی ہوگئے ، والدہ کہنے لگی کہ بیٹا پڑھائی کا نوکری سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ، تعلیم تو تم کو سوچنے، سمجھنے اور بات کرنے کا شعور دے گی ، تعلیم کو نوکری کے تناظر میں مت دیکھو ،ڈگری کو نوکری کاسرٹیفیکیٹ مت سمجھو ،اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک ان پڑھ شخص بھی کامیاب ہو سکتا ہے لیکن وہ اپنی کامیابی کو انجوائے نہیں کرسکتا ۔ لیکن میرے سر پہ ایک ہی بھوت سوار تھا کہ باہر جانا ہے ۔خیر میں نے چوری چوری پاسپورٹ اپلائی کیا اور دیر تک گھر سے باہر رہنے لگا ، جب رات کے پچھلے پہر آتا تو دبے قدموں اپنے کمرے میں چلا جاتا ، والدہ ابھی تک جاگ رہی ہوتی اور باقی رات مصلے پہ بیٹھ کر گزار دیتی ۔ مجھے دوست رشتہ داروں نے بہت سمجھایا کہ تمہاری والدہ نہیں چاہتی کہ تم ان کی آنکھوں سے دور ہو، لیکن میں کہتا تھا کہ میرے والدین کو مجھ سے کوئی محبت نہیں اور مجھے بھی ان سے کوئی الفت نہیں ۔کچھ دنوں میں مجھے پاسپورٹ مل گیا اور دوستوں یاروں سے پیسے ادھار پکڑ کہ میں نے ایجنٹ کو پاسپورٹ دے دیا۔ ویزا مل تے ہی میں والدین کو بتائے بغیر فلائٹ پکڑکرادھر چلا آیا۔اپنی داستان سناتے سناتے سرفرازآبدیدہ ہو گیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔میں نے کہا یار اس میں رونے کی کیا بات ہے ؟ تم جیسا چاہتے تھے ویسا تم کو مل گیا۔ان پڑھ ہونے کے باوجود ملٹی نیشنل کمپنی میں اچھی نوکری کر رہے ہو۔اپنی زندگی سے خوش اور مطمئن بھی نظر آتے ہو پھر یہ رونا کیسا؟کہنے لگا کہ جب سے میں ادھر آیا تو والدین کو کبھی کبھی کال کر لیتا تھا ، سہانے مستقبل کے خواب کے لیے دن رات محنت کی ، رات کو تھکا ہارا روم میں آتا اور کھانا کھا کر سو جاتا ۔کچھ عرصہ میرا والدین سے کوئی رابطہ نہیں رہا ،اور نہ کسی کو فون کیا ، زیادہ تر فون بند ہی رکھتا ۔اس دوران میرے والدکا انتقال ہوگیا گھر والے میرا موبائل ملاتے رہے اور والد کا جنازہ رکھ کر میرا انتطار بھی کرتے رہے ۔لیکن میرا دل پتھر ہو چکاتھا ۔بس ایک واقعہ نے میری زندگی کو ریورس کر دیا ، میرے ایک کمپنی کولیگ نے والدین کو حج پہ بلانا تھا جب اس نے کمپنی میں لوکل چھٹی کے لیے اپلائی کیا تو مینیجر نے کام زیادہ ہے کا بہانا بنا کر درخواست مسترد کردی ۔ تھوڑی دیر میں میرے کولیگ نے مینیجر کو اپنا استعفیٰ لکھ کہ دے دیا کہ مجھے زندگی میں بیشمار نوکریاں مل سکتی ہیں لیکن والدین کی خدمت کا موقع دوبارہ نہیں مل سکتا ، میرے والدین تمام عمر اس مقدس سفر کی خواہش کرتے رہے ، ان کی خدمت کے عوض نوکری کو ٹھوکر مارنا میرے لیے کچھ بھی نہیں ۔میرا کولیگ چلا گیا لیکن مجھے شدید احساس گناہ ہو رہا تھا ، مجھے محسوس ہوا کہ میں نے اپنے والدین کو کتنا دکھ دیا ، میرا باپ میری شکل کو ترستے ترستے اس دنیا سے چلا گیا ، میرے اعصاب شل ہو گئے تھے ،بے بسی سے میں نے بھی چھٹی کے لیے اپلائی کردیا ۔خیر خیر کر کے جس دن میری فلائٹ تھی راستے میں یہی سوچتا رہا کہ میں جاتے ہی والد ہ کے پاؤں پکڑ لوں گا ، میں کہوں گا کہ مجھے آپ سے بہت محبت ہے ، میں اپنی غلطی کی معافی مانگتا ہوں ، لیکن جب میں ائیرپورٹ اترا تو یہ خبر سن کر میری جان نکلنے لگی کہ میری والدہ بھی فوت ہوچکی ہے ۔میں والد ہ کی نعش سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ رونے لگااور نعش سے معافی مانگنے لگا ، لیکن اب مجھے والدہ کی طرف سے معافی نہیں مل سکتی تھی ۔میں بوجھل قدموں سے والد کی قبر پہ بھی گیا جو دکھی دل سے اس دنیا سے رخصت ہو گیا ، میں اندر سے اکیلا ہو گیا تھا ، مجھے کو ئی جائے پنا ہ نہیں مل رہی تھی کہ کدھر جاؤں ، کون ہے جو مجھے والدین سے معافی دلا دے ۔صدیقی صاحب ہم سے روز غلطیاں ہوتی ہیں ، ہم روز والدین ، رشتہ داروں اور دوستوں کا دل دکھاتے ہیں ،اور ہمیں احساس بھی ہوتا ہے کہ ہم غلطی پر ہیں لیکن پھر بھی ہم معافی نہیں مانگتے ۔ہم والد، والدہ ، دادی ، چاچا کے پاؤں دبانا چاہتے ہیں لیکن ہماری انا، ہمارا عہدہ ، ہمارا سٹیٹس ، ہماری چودھراہٹ ہمارے نیکی کے ارادے کو کچل دیتی ہے ، ہم بہن ، بھائی ، چہچا، والد، تایا ، پھوپھی کو کہنا چاہتے ہیں کہ میری کامیابی کے پیچھے آپ کا ہاتھ ہے ، آج میں جو کچھ ہوں آپ کی وجہ سے ہوں ، آپ مجھے سپورٹ نہ کرتے تو شاید میں جو کچھ ہوں وہ نہ ہوتا ۔لیکن جب ہم شکریہ ادا کرنا ، معافی مانگنا ، اور تعریف کرنا چاہتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ ان میں سے کچھ رشتے اب اس دنیا میں ہی نہیں رہے ۔مجھے جب بھی اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے تو میں رات کے دو بجے بھی کال کر کے معافی مانگ لیتا ہوں اور میری تمام دوست احباب سے التماس ہے کہ اگر آپ سے کوئی غلطی ہوگئی تودو منٹ کی ناراضگی کو دس سال تک مت لے کر جائیں آج ہی معافی مانگ لیں ۔{jcomments on}