143

الیکشن کی آمد ‘چوہدری نثار کیلئے الٹی گنتی شروع

آصف شاہ
ایک میاں بیوی کی آپز میں بہت محبت تھی ایک دن وہ باتیں کر رہے تھے انہوں نے صلاح کی کہ اپنی ایک بھینس لیتے ہیں بیوی خوش ہوئی اور کہنے لگی کہ میں اپنے ماں باپ کے لیے دودھ بھیجوں گی شوہر کو غصہ آیا اور کہنے لگا کہ کیوں اسی بات پر تو تکار بڑھنے لگی اور مار کٹائی پر جا پہنچی محلے کے لوگ اکھٹے ہوئے اور تمام معاملات سننے کے بعد کہا کہ کم فہموں پہلے بھینس تو لے لو اوراس وقت چوہدری نثار علی خان کی سیاست بھی ایسے ہی حالات کا شکار ہے ،معاملات اس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ کسی وقت کیا ہو کہا نہیں جاسکتا چوہدری نثار علی خان ان دنوں ملکی سیاست میں ہاتھ کا چھالا بنے ہوئے ہیں نہ صرف ملکی بلکہ بین القوامی میڈیابھی اپنی نگاہیں ان پر مرکوز کر کے بیٹھا ہے گزشتہ ہفتہ انہوں نے پے درپے میٹنگز کر کے اپنے سیاسی لائحہ عمل کا اعلان کرنا تھا انہوں نے دو صوبائی اور ایک قومی حلقہ سے الیکشن لڑنے کا اعلان کردیا ہے جبکہ ایک حلقہ کو مشاورت کے نام پر زیر غور کر دیا ہے،ان میٹنگز میں جو قابل غور بات ہے وہ یہ ہے کہ حسب روایات چوہدری نثار علی خان نے پی پی 10کی مختلف یوسیز کے چیئرمینوں کو نظر انداز کر دیا ہے اوران لوگوں کو دعوت تک دینا گوارا نہیں کیا ہے ،حلقہ بندیوں سے قبل جب انہوں نے اپنے حلقہ کا دورہ کیا تھا تو انہوں نے چیئرمین یوسی بشندوٹ زبیر کیانی کے زیر انتظام ایک بڑے جلسے میں کہا تھا کہ میں آج یوسی بشندوٹ سے اپنی الیکشن کمپین کا آغاز کر رہا ہوں ،گوکہ اس وقت یوسی بشندوٹ کو پی پی9گوجر خان کے ساتھ لگا دیا گیا ہے لیکن کیا ان کا حق نہیں بنتا کہ وہ چیئرمین یوسی بشندوٹ کو بلا کر کہتے کہ مجھے حلقہ بندیوں نے ہمیں علیحدہ کر دیا لیکن آپ ہمارے لیے آج بھی اتنے ہی اہم ہیں جتنے پہلے تھے ،یوسی گف پی پی 10کا حصہ ہے اور منتخب چیئرمین فیصل منور کو دعوت تک نہیں دی گئی اس کی کیا وجہ ہے شائید اس کی وجہ ان کی موجودہ ایم پی اے قمرالسلام راجہ سے قرابت داری ہو سکتی کیونکہ چند ہفتہ قبل موجودہ ایم پی اے قمرالسلام راجہ نے صوبائی کے حلقہ سے الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کیا تھا،جو چوہدری نثار کو ناگوار گزرا اور اسی وجہ سے چیئرمین یوسی گف کو نہ بلا کر ایک واضع پیغام دے دیا گیا ہے،اس میٹنگ میں چیئرمین یوسی لوہدرہ نوید بھٹی نے بھی شرکت نہیں کہ چیئرمین یوسی لوہدرہ اس سے پہلے بھی جب چوہدری نثار نے حلقہ کا دورہ کیا تھا تو انہوں نے ان جلسوں میں شرکت نہیں کی ان کا موقف تھا کہ چوہدری نثار علی خان منتخب نمائندوں کو عزت نہیں دیتے ،اور جو کام منتخب نمائندوں کے کرنے کے ہیں وہ ان کے کارخاصوں کے زریعہ کیوں کروائے جاتے ہیں اور یہ ان کا خاموش احتجاج تھا لیکن ناک پر مکھی کونہ بیٹھ دینے والے چوہدری نثار نے اس بات کی کوئی خاص پرواہ نہیں کی اور حسب عادت اور حسب روایات انہوں نے اپنے کار خاصوں کی بات مان اس مسلے کو کوئی خاص اہمیت نہ دی اس کے بعد بات کی جائے چیئرمین یوسی بگا شیخاں چوہدری عامر جمشید کی ان کو دعوت تو دی گئی تھی لیکن انہوں نے اپنے کسی کام کے حوالہ سے شرکت کرنے سے معذرت کر لی چوہدری عامر جمشید بھی ان چیئرمینوں میں شامل تھے جو اپنے کسی نی کسی مسلہ کے حوالہ سے چوہدری نثارکے سامنے بات کہنے کی کوشش کرتے وہ بھی کار خاصوں کی ہٹ پر تھے،چوہدری نثار علی خان کی سیاست ان کی فہم فراست اور راست گوئی بہت مشہور ہے لیکن ان کے قول فعل میں تضاد پایا جاتا ہے اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ ایک میٹنگ میں انہوں نے برملا کہا کہ میرا کوئی کارخاص نہیں لیکن ان کا کوئی بھی کام ان کار خاصوں کے بغیر نہیں ہوتااور ان کار خاصوں نے پارٹی کے ایسے ایسے ہیرے اپنے مفادات کی تکمیل نہ ہونے پر کھڈے لائن لگا دیے ہیں ،زبیر کیانی ہو یا نوید بھٹی انہوں نے چوہدری نثار علی خان کے لیے دن رات ایک کیا اس کے جلسے جلوسوں پر لاکھوں روپے خرچ کیے لیکن جب وقت آیا تو انہوں نے تمام کارکنان کو مکھن سے بال کی طرح نکال باہر کیا اس کو کون سی سیاست کا نام دیں اور یہ صرف دو اشخاص کے ساتھ نہیں بلکہ ہر اس نمائندے کے ساتھ پیش ہوتا ہے جس کا تعلق چوہدری نثار علی خان کے حلقہ سے ہے ،اس وقت انہوں نے چار حلقوں سے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے الیکشن جیتنا یا ہارنا بعد کی بات ہے لیکن اگر کامیابی ان کا مقدر بن جاتی ہے تو پھر وہ کون ساحلقہ چھوڑیں گے اور وہاں کس کو عوام پر زبردستی مسلط کریں گے تو دوسری طرف راجہ قمراسلام اس حلقہ سے الیکشن لڑنے کا اعلان کر چکے ہیں لیکن انہوں نے اپنے الیکشن کو پارٹی ٹکٹ سے مشروط کر رکھا ہے تو چوہدری نثار علی خان نے برملا اعلان کر رکھا کہ کہ ٹکٹ لیتا کون ہے اس سے پہلے نہ کبھی لیا اور نہ آئندہ کبھی لونگا دوسری جانب عمران خان کے نرم رویے نے اس حلقہ میں تحریک انصاف کے امیدواران کے ساتھ ساتھ ووٹروں اور سپورٹروں دونوں کو پریشان کر رکھا ہے اس حلقہ سے کرنل اجمل صابر راجہ اور چوہدری امیر افضل گزشتہ چار سالوں سے بھاگ دوڑ کر ہے ہیں ان کا کیا مستقبل ہو گا تو اگر ن لیگ چوہدری نثار کے حالیہ رویہ کے برعکس ان کو سپورٹ کرتی ہے تو قمرالسلام راجہ کی سیاست کا مستقبل تاریک ہو سکتا ہے تو وہ یوسی چیئرمین بھی جو اب چوہدری نثار اور ان کے کار خاصوں کے ہاتھوں تنگ ہیں کوئی نہ کوئی لائحہ عمل دے سکتے ہیں دوسری جانب چوہدری نثار اس وقت کے حالات کے مطابق وہ سولو فلائٹ کے موڈ میں ہیں ان کی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح وہ آذاد حثیت سے میدان میں ہوں اور ان نے مدمقابل نہ تو ن لیگ کا کوئی امیدوار ہو اور نہ ہی تحریک انصاف کا اور اسی لیے انہوں نے این اے 63 کے لیے کھل کر اعلان نہیں کیا ہے تاکہ وہ اپنے دیرینہ حریف غلام سرور خان کو راستہ دے کر خود بھی آسان راستہ لیں سکیں ،لیکن آثار بتاتے ہیں کہ اب وہ وقت آرہا ہے ان کو شائید کو ئی ریلیف نہ مل سکے اور ان کو اپنے کار خاصوں کے کیے کی سزا مل سکتی ہے ،تو دوسری طرف مقافات عمل نے بھی شائید اپنا کام شروع کر دیا ہے منتخب نمائندوں کو سرعام باتیں سنانے اور انگلی کے اشارے سے بٹھانے والے چوہدری نثار اب خود اس مسلے سے گزر رہے ہیں اور ان کو غیر منتخب پرویز رشید کے باونسرز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیا ہوگا یہ تو شائید قبل از وقت کہنا مشکل ہو لیکن ایک بات ضرور ہے کہ چوہدری نثار کی سیاست کے لیے آمدہ الیکشن ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہو سکتے کیونکہ منتخب بلدیاتی نمائندوں کو نظر انداز کر کے وہ کلہاڑی پر پاوں مار چکے ہیں اب یہ دیکھنا ہے کہ منتخب نمائندے کتنے پانی میں ہیں

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں