55

الطاف حسن قریشی، قلم فاؤنڈیشن اور مولانا مودودی

اُردو ڈائجسٹ کے مدیرِ اعلیٰ الطاف حسن قریشی کا نام عہد موجود میں پاکستان کی صحافت میں بہت ہی سربلند ہے اور معزز و معتبر بھی ، ان کا کالم ملک کے سب سے بڑے قومی اخبار روزنامہ جنگ کے ادارتی صفحہ پر نمایاں طور پہ شائع ہوتا ہے ۔ موصوف فرماتے ہیں کہ امیرِ شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری حقیقی معنوں میں ایک عظیم شخصیت تھے ۔ ان سے ملنے کے بعد میرے دل میں نامور لوگوں سے ملنے کا شوق پیدا ہوا ، لیکن میں طبعاً شرمیلا اور آگے بڑھ کر تعلقات بنانے سے گریزاں تھا ۔

ہم پاکستان آئے ، تو سید ابو الاعلیٰ مودودی سے شرفِ ملاقات حاصل ہوا جس کے بعد معروف شخصیات سے ملاقاتوں کے در کُھلتے چلے گئے ۔ قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل کے مہتممِ اعلیٰ علامہ عبدالستار عاصم نے اپنے ادارے کے زیر اہتمام حال ہی میں الطاف حسن قریشی کے ملاقاتی خاکوں پر مشتمل کتاب دانشِ گفتگو کے نام سے شائع کی ہے۔ اردو ادب کے نامور نقاد پروفیسر وقار عظیم اپنے تاثرات میں لکھتے ہیں کہ ” اُردو ڈائجسٹ کے یہ ملاقاتی خاکے اس لحاظ سے فکر انگیز اور نتیجہ خیز ہیں کہ ان کے مرتب کرنے میں وہ تمام باتیں پیش نظر رکھی گئی ہیں جو اس طرح کے خاکوں کی ترتیب و تدوین میں فنی لوازم کی حیثیت رکھتی ہے۔

ان خاکوں کی خصوصیت اور اہمیت یہ ہے کہ یہ ہمیں اپنے دور کی بہت سی اہم شخصیتوں سے روشناس کرواتے ہیں۔ انہیں پڑھ کر زندگی کے بعض پچیدہ اور اہم مسائل کے متعلق ان کا نقطہ نظر سامنے آتا ہے اور بہت سی گُھتیاں خود بہ خود ہی سُلجھ جاتی ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ جوں جوں زمانہ آگے بڑھتا جاۓ گا اس کتاب کی اہمیت میں مزید بھی اضافہ ہو گا“۔ علامہ عبدالستار عاصم فرماتے ہیں کہ الطاف حسن قریشی صاحب نے ان ملاقاتوں کی رُوداد جس اسلوب میں لکھی ہے ، اس نے ان کی معنویت ، خوبصورتی اور افادیت میں غیر معمولی اضافہ کر دیا ہے ۔ ان کے اسلوب میں گفتگو کی دانش ہے ، لطیف طنز و مزاح ہے اور تاریخ کے نشیب و فراز بھی ہیں ۔

یہ ملاقاتیں ایسے ماحول کے اندر ہوئی ہیں جب جنرل ایوب خان کا مارشل لاء تمام قہاریت کے ساتھ نافذ تھا ۔ جس میں حکومت پہ تنقید کرنا اور کھلے الفاظ میں حق بات کہنا کڑی آزمائشوں کو دعوت دینے کہ مترادف سمجھا جاتا تھا ۔ اس نوع کے حادثات ہو بھی چکے تھے ، مگر بعض حوصلہ مند اہل قلم مختلف انداز میں شہادتِ حق کا فریضہ ادا کرتے رہے ۔ الطاف حسن قریشی صاحب نے انٹرویو نگاری کے ذریعے افکار کی دنیا میں ایک خاموش اور ہمہ گیر انقلاب برپا کیا اور وہ اُردو لٹریچر کو مسکراتے استعاروں اور دلوں میں آرزو جگاتی تشبیہوں سے مزیں کرتے رہے“ ۔ میری نظر میں اس کتاب میں شامل سبھی مکالمے بہت ہی اچھے ہیں لیکن میرے پسندیدہ مفکر اور نثر نگار حضرت مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کے ساتھ الطاف حسن قریشی صاحب کی جو گفتگو ہوئی اس کی ایک جھلک حاضر خدمت ہے آپ بھی ملاحظہ فرمائیے ۔

الطاف حسن قریشی صاحب نے حضرت مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی جی علیہ الرحمہ سے سوال کیا کہ آپ کے نزدیک اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے ۔ حضرت مولانا مودودی رحمتہ اللہ علیہ نے محتاط الفاظ استعمال کرتے ہوئے جواب دیا کہ میرے نزدیک پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ وہی ہے جو تمام مسلم ممالک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ،اور وہ یہ کہ آخرکار لیڈرشپ آیا اسلام کے ماننے ، سمجھنے اور اخلاص کے ساتھ اس پہ عمل کرنے والوں کے ہاتھ میں آتی ہے یا ایسے ہی لوگوں کے ہاتھ میں رہتی ہے جو اسلام کا نام لیتے ہوئے ، یا کھلم کھلا اس کی مخالفت کرتے ہوئے ، اپنی قوم کو بگٹٹ غیر اسلامی راستے پہ لے جانا چاہتے ہیں ۔

اگر مستقبل قریب میں اس مسئلے کا فیصلہ پہلی صورت کے حق میں نہ ہوا تو مجھے اندیشہ ہے کہ سارے مسلم ممالک سخت تباہی سے دوچار ہوں گے ۔ بدقسمتی سے بیشتر مسلم ممالک میں جو لیڈر شپ قائم ہے وہ کسی عنوان بھی مسلم عوام کے ضمیر سے مطابقت نہیں رکھتی اور کسی حکومت کی کوئی پالیسی ایسی صورت میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک پوری قوم کا ضمیر پورے اطمینان سے اس کے ساتھ نہ ہو ۔ اس لیے میں یقین رکھتا ہوں کہ تمام مسلمان ملکوں کے مستقبل کا انحصار صرف ایک صحیح قسم کی اسلامی لیڈرشپ پہ ہی ہے ۔ خدانخواستہ اگر یہ قیادت میسر نہ آئی تو ہم سب کو بہت ہی برا دن دیکھنا پڑے گا ۔ اس لیڈر شپ کو تیار کرنے کے لیے ہمیں کس کس شعبے میں اصلاح درکار ہے ۔

اس سوال کا جواب دیتے ہوئے مولانا مودودی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ ” لیڈر شپ کسی ایک شعبہ میں نہیں اُبھرا کرتی ۔ اسے زندگی کے ہر شعبے میں ظاہر اور نمایاں ہونا چاہیے ۔ میرے خیال میں مسلمان ملکوں میں جمہوری نظام کو نشو و نما پانے کا موقع مل جائے تو بالکل ایک فکری ارتقا کے طور پہ مسلمان ملکوں میں اسلامی لیڈرشپ ضرور اُبھر آئے گی ۔ مغرب زدہ طبقہ ہر مسلمان ملک میں ایک بڑی ہی محدود تعداد میں ہے ،

لیکن مغربی استعمار کی بدولت یہ اقلیت اقتدار کی وارث بن گئی ہے ۔ یہ طبقہ اس بات کو بخوبی جانتا ہے کہ اگر ان ملکوں میں جمہوریت کو کام کرنے کا موقع ملا گیا ، تو آخرکار اقتدار ان لوگوں کے ہاتھوں سے نکل جائے گا ۔ اس لیے یہ طبقہ سازشوں کے ذریعے آمریت قائم کر رہا ہے اور جمہوریت کو اُبھرنے کا موقع نہیں دے رہا “۔ شاعرِ مشرق حضرت علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے کیا ہی خوب فرمایا تھا کہ ۔

سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں