نہ اٹھا پھر کوئی رومی عجم کہ لالہ زاروں سے
وہی آب و گلِ ایراں وہی تبریز ہے ساقی
آصف خورشید/خالق کائنات نے بر صغیر پاک و ہند کے مظلوموں کی گر یہ زاری کو دیکھا۔ ان کے گالوں پر پھیلتے ہوئے آنسو پر نظر ڈالی۔ ان کی آہ سحر گاہی کو سنا تو اس قوم کی رہنما ئی کے لیے اقبال جیسی ہستی کو تحفے میں عطا کیا۔ کیو نکہ (خدا جب کسی قوم پر احسان کرتا ہے تو اس کو تحفے میں اقبال دیتا ہے)۔آپ کی پیدائش سے پہلے آپ کے والد گرامی فرماتے ہیں کہ میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ آسمان پر ایک سفید کبوتر اڑ رہا ہے۔جو انتہائی خوبصورت ہے۔دیکھتے ہی دیکھتے وہ کبوتر میری گود میں آکر گرتا ہے۔ اور میں اس کو اٹھا لیتاہوں۔ کچھ عرصے بعد (9نومبر 1877کو) اقبال کی پیدائش ہوتی ہے اور اس خواب کی تکمیل ہوتی ہے۔ابھی آپ کچھ ماہ کے ہی تھے کہ آپ کی والدہ نے آپ کو پینے کے لیے بکری کا دودھ دیا۔ دودھ ابھی حلق تک پہنچا نہیں کہ آپ نے قے کر دی۔ بار بار پلانے کے باوجود آپ قے کر دیتے والدہ نے فرمایا کہ پتہ کیا جائے کہ بکری کہاں سے خریدی گئی۔جس کا دودھ اقبال نہیں پی رہے جب پتہ کیا گیا تو پتہ چلا کہ بکری حرام کے پیسوں کی آئی ہے۔حالانکہ گھر والوں کو بھی اس بات کا علم نہ تھا۔ دنیاو ی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بالخصوص عشق رسول کا یہ عالم تھا کہ جب بھی آپ کے سامنے حضور کا نامے گرامی لیا جاتا تو بے ساختہ آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے۔قرآن سے اس قدر لگاؤ تھا آپ کا خادم عر ض کرتا ہے کہ اقبال جب قرآن پڑھ کر فارغ ہوتے تو قرآن کے اوراق اس قدر گیلے ہو جاتے کہ میں ان کو کئی کئی دیر تک خشک کرتا رہتا۔آقا کریم سے اس قدر والہانہ عشق تھا کہ ہر وقت آپ پر درود شریف بھیجتے رہتے۔ جب آپ کو حکیم الامت کا لقب عطا کیا گیا تو ایک شخص آپ کی خدمت میں حا ضر ہوا تو پوچھا قبلہ آپ نے ایسا کون سا عمل کیا جس نے آپ کو حکیم الامت بنا دیا۔ روزگار فقیر جلد دوم میں ہے کی 1920کے ابتدائی ایام میں علامہ اقبال کے نام ایک گمنام خط آیاجس پر تحریر تھا کہ حضور پاک کے دربار میں تمہاری ایک خاص جگہ ہے جس کا آپ کو علم نہیں اگر آپ فلاں وظیفہ پڑھ لو تو اس کا علم ہو جائے گا۔ خط میں وظیفہ بھی لکھا ہوا تھا۔ علامہ اقبال نے یہ سو چ کر کہ راقم نے اپنا نام نہیں لکھا۔ا سکی طر ف توجہ نہ دی۔ اور خط ضائع ہو گیا۔خط کے چند ماہ بعد کشمیر سے ایک پیر زادہ آپ سے ملنے لاہور آیا۔ اقبالؒکو دیکھتے ہی رونا شروع کر دیا علامہ اقبال نے یہ سوچ کر کہ شاید یہ شخص مصیبت زدہ ہے۔ میرے پاس کسی ضرورت سے آیا ہے شفقت آمیز لہجے میں استفسار کیا تو اس نے جواب دیا کہ مجھے کسی مدد کی ضرورت نہیں مجھ پر اللہ کا فضل ہے میرے بزرگوں نے اللہ کی ملازمت کی اور میں ان کی پنشن کھا رہا ہوں۔ رونے کی وجہ پوچھی تو بتا یا کہ میں سری نگر کے قریب ایک گا ؤں کا رہنے والا ہوں۔ ایک دن عالم کشف میں، میں نے حضور پاک کا دربار دیکھا۔ جب نماز کے لیے صف کھڑی ہوتی تو آپ نے دریافت فرمایا۔کہ اقبال آیا ہے کہ نہیں۔معلوم ہوا نہیں آیا۔اس پر ایک بزرگ کو بلانے کے لیے بھیجا۔ تھوڑی دیر بعد کیا دیکھتا ہوں کہ ایک نوجوان اس بزرگ کے ساتھ نمازیوں کی صف میں داخل ہوکر حضرت محمد کے دائیں جانب کھڑا ہو گیا۔پیر زادے نے علامہ اقبال سے کہا کہ میں نے اس سے پہلے نہ تو آپ کی شکل دیکھی نہ ہی آپ کانام پتہ جانتا تھا۔کشمیر میں ایک بزرگ مولانا نجم الدین نے آپ کا نام لے کر آپ کی تعریف کی۔اس کے بعد ملنے کا شوق پیدا ہوا اور ملاقات کے واسطے کشمیر سے لاہور تک کاسفر کیا۔آپ کا خادم خاص آپ کے مرنے کے بعد ایک واقعہ بیان کرتا ہے کہ ایک رات اقبال کمرے میں کوئی مہمان آیا۔آدھی رات کا وقت تھا کہ اقبال نے مجھے بلایا کہا باہر گلی میں جاؤ۔ دوگلاس لسی کے لے کر آٗؤ۔ خو د اندر چلے گئے۔ میں اس حیرانی میں کہ اس وقت کون سے مہمان آگئے اور اس آدھی رات کے وقت لسی کہا ں سے ملے گی۔ میں گلی کی طر ف چل پڑا سامنے دیکھتا ہوں کہ ایک بزرگ نے گلی کے نکڑ پر ایک ریڑھی لگا رکھی ہوتی ہے۔ جونہی میں ان کے پاس پہنچا کیا دیکھتا ہوں کہ دو گلاس لسی کے تیا ر پڑے ہوتے ہیں۔لسی اٹھا کر کمرے کی طرف آنے لگا رستے میں خیال آیا اس وقت یہ لسی والا کون اور کہا ں سے آگیا۔ کمرے کے پاس پہنچا تو دستک دی اقبال نے دروازہ کھول کر لسی کے گلا س پکڑ لیے۔ کیا دیکھتاہوں کہ پورا کمرہ روشن ہے۔ کچھ ہی دیر بعد جب مہمان چلے گئے تو میں نے حیران ہو کر اقبال سے پو چھا۔ حضور یہ کیا ماجرہ ہے۔اس وقت یہ کون مہمان تھے اب پوچھ ہی بیٹھے ہو تو بتا دوں۔ جو مہمان کمرے میں آئے تھے وہ خواجہ معین الدین چشتی تھے۔ اور جن سے لسی لے کر آئے ہو وہ خواجہ نظام الدین اولیاتھے اور ساتھ ہی فرمایا کہ ایسے لوگوں کا آناجانا لگا رہتا ہے۔اقبال ؒکے آخری دور حیات میں عشق رسول اتنی والہانا کیفیت اختیار کر گیا کہ جہاں حضور کا اسم گرامی زبان پر آیا۔ آنکھوں سے اشکوں کی جھڑی لگ جاتی تھی۔ روز محشر آقا سے شرمندگی کا اتنا احساس تھا کہ رب کی بارگاہ میں بھی التجا کر دی۔
تو غنی از ہر دو عالم من فقیر روز محشر عذر ہا ئے من پذیر
گر تو می بینی حسابم ناگزیر از نگائے مصطفے ٰپنہاں بگیر
کیمرج یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے آپ کو ایک خط لکھا آپ خط پڑھ کر رونے لگے، خادم نے عرض کی آپ کیوں رو رہے ہیں۔ آپ نے وہ خط خادم کے حوالے کر دیا خادم نے پڑ ھا تو لکھا ہوا تھا کہ میں آپ کی کتاب پیام مشرق کا انگلش زبان میں ترجمہ کر کے اپنی قو م کو تعلیم دینا چاہتا ہوں آپ اجازت دیں۔ خادم نے عرض کی حضور اس میں رونے والی کون سی بات ہے آپ کو تو خوش ہونا چاہئے تھا کہ کیمبر ج یونیورسٹی کا ایک پروفیسر آ پ کی کتاب کا تر جمہ کر کے اپنی قوم کو تعلیم دینا چا ہتا ہے اس میں رونے والی کون سی بات ہے آپ نے فرمایا رونا ہی تو اسی بات کا ہے کی جس قوم کے لیے میں شاعری کی اس قوم کو احساس ہی نہیں اس کے مقابلے میں غیر اس کا ترجمہ کر کے اپنی قوم کو تعلیم دینا چاہتے ہیں آپ اکثر آقا کی بارگاہ میں التجا کرتے تھے۔
اے امیر امم داد ازتو خاہم میرا یاراں غزل خوان شمر دند
ترجمہ: “اے امت کے امیر (حضور پاک ) میں آپ سے درخواست گزار ہوں کہ میری قوم نے مجھے صرف شاعر سمجھا ہوا ہے “اللہ کریم ہمیں اقبال کی شاعری صحیح معنوں میں سمجھنے کی تو فیق دے۔ آمین
383