ساجد محمود
عقیدہ ختمِ نبوت ؐ ہر مسلمان کے ایمان کا بنیادی جزو ہے حکومت کی جانب سے ختمِ نبوت کی شق میں تبدیلی انتہائی شرمناک اور قابلِ مزمت فعل ہے اس اقدام سے جہاں سیاست دان خیانت کے مرتکب ہوئے ہیں وہاں انہوں نے ملکی سلامتی کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے اور ملک کے اندر افراتفری اور انتشار پھیلانے کی کو شش کی گئی جسکا واحد مقصد سیاسی مقاصد کا حصو ل فوج اور عوام کو ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑا کرنا تھا تاہم فوج کی اعلیٰ قیادت کی دانشمندی سے یہ منصوبہ ناکام بنا دیا گیا قومی اسمبلی سے ختمِ نبوت میں ترمیم کی منظوری کے بعد حکومتی اراکین کی جانب سے جس طرح خوشیوں کے شادیانے بجائے گئے وہ کمزور ایمان کی نشانی تھی اور اس ترمیم کے حق میں ووٹ دینے والے تمام اراکین کے بھی مواخذے کی ضرورت ھے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے کیے جا سکیں بل کی منظوری کے بعد شیخ رشید احمد کی اسمبلی میں تقریر سے ختمِ نبوت کی شق میں تبدیلی کے انکشاف کے بعد شدید عوامی ردعمل سامنے آیا نوزائیدہ مذہبی سیاسی جماعت تحریک لبیک یا رسول اللہ کے راہنما خادم حسین رضوی کی زیر قیادت سنی تحریک نے حکومت پر دانستہ شق میں تبدیلی کا الزام عائد کیا اور فیضِ آباد کی مرکزی شاہراہ پر دھرنا دیکر وزیر قانون زاہد حامد کا استعفیٰ طلب کیا تاہم حکومت نے اسے دفتری غلطی قرار دے کر اسے دوبارہ اصل شکل میں بحال کرنے کا دعویٰ کیا اور مظاہرین کی جانب سے استعفیٰ کا مطالبہ مسترد کردیا دھرنے کی طوالت سے جڑواں شہروں کی آبادی کو نقل و حرکت اور معمولات زندگی کو رواں دواں رکھنے میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑا اسی دوران مریض بروقت ہسپتال نہ پہچنے کی بنا پر زندگی کی بازی ہار گئے عدالت نے عوامی مشکلات کے پیشِ نظر دھرنے کو پرامن طور پر منتشر کرنے کا حکم دیا حکومت کی جانب سے ناکام آپریشن کیا گیا آنسو گیس کی شدید شیلنگ اور ربڑی گولیوں کے استعمال سے کئی افراد زخمی ھوئے اور پرتشدد واقعات میں متعدد افراد ہلاک ھو گئے دوسری طرف دھرنا قیادت اور شر کاء اپنے جائز مطالبات پر ڈٹے رہے ملک گیر احتجاجی کال سے عا شقان رسولؐ نے حرمت رسولؐ کی حفاظت کے لیے ملک کے دیگر شہروں میں احتجاج شروع کر دیا اور خلق خدا امڈ آئی بڑھتے ھوئے عوامی ردعمل کے پیش نظر حکومت جھکنے پر مجبور ھو گئی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی درخواست پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ مثالتی کردار ادا کرنے پر رضامند ھو گئے وزیر قانون زاہد حامد کے استعفیٰ کے بعد تین ہفتوں تک جاری دھرنے کا اختتام ھوا دھرنے کی کامیابی مذہبی قیادت کی ثابت قدمی اور عوامی فطری ردعمل کا نتیجہ تھا جسکی بنا پر اسلام مخالف قوتوں کو منہ کی کھانی پڑی اور فوج کے مثبت کردار ادا کرنے سے ملک داخلی انتشار سے بچ گیا ان تمام معاملات کی درستگی پر افواج پاکستان خراج تحسین کی مستحق ھے میاں محمد نواز شریف کی طرف سے اس معاملے پر راجہ ظفرالحق کی سربراہی میں قائم کی جانے والی حکومتی کمیٹی سے انصاف کے تقاضے پورے کرتے ھوئے غیر جانبدارانہ تحقیقات کی توقع رکھنا محض خام خیالی ھو گی اب چونکہ معاملہ عدالت میں ھے اس لیے اب دیکھنا یہ ھے کہ عدالت اس حساس معاملے پر اصل حقائق سے پردہ اٹھانے اور مرکزی کرداروں کو بے نقاب کرنے میں آیا حکومتی کمیٹی کی رپورٹ پر اکتفا کرے گی یا پھر ازسرِ نو عدالتی انکوائری کمیشن قائم کیا جائے گا اگر بادی النظر میں دیکھا جائے تو دفتری غلطی کا امکان کم ہی نظر آتا ھے اس ترمیم کا واحد مقصد قادیانیوں کیلئے الیکشن میں حصہ لینے میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا اور اسلام مخالف قوتوں کو خوش کرنا تھا یہ بات بھی غور طلب ھے کہ آخر اس حساس معاملے کو چھیڑنے کی ضرورت کیوں پیش آئی اور اس دانستہ ترمیم کے پس پردہ عزائم و مقاصد کیا تھے تاہم عدالتی فیصلے سے اس ترمیم کے مرکزی کرداروں سے پردہ اٹھانے میں مدد ملے گی تاہم ختمِ نبوت کے بل میں
ترمیم سے عوامی سطح پر مسلم لیگ ن کی سیاسی ساکھ کو شدید دھچکہ لگا ھے نہ صرف پارٹی انتشاری کیفیت کا شکار ھے بلکہ پارٹی کے اندر نئے گروپ کی تشکیل کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا اور اس کمزوری کا لا محالہ فائدہ تحریک انصاف اور مذہبی جماعتیں اٹھا سکتی ہیں مذہبی قائد ین سے التجا ھے کہ ختمِ نبوت کے معاملے پر عدالتی حکمنامے کا انتظار اور احتجاج سے گریز کیا جائے حال ہی میں کابل میں سی آئی اے بھارتی خفیہ ایجنسی را اور افغان خفیہ ایجنسیوں کی بیٹھک پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کی منصوبہ بندی کا حصہ تھا اور حالیہ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں دہشت گرد کاروائیاں ملک دشمن قوتوں کے مذموم مقاصد کے حصول کا حصہ ہیں لہذا ان حالات کے تناظر میں سیاسی و مذہبی قیادت اور عوام کو اپنی افواج کیساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کرنا چاہیے تاکہ ملک دشمن قوتوں کے ناپاک عزائم کو شکست دی جا سکے
140