افغانستان پر ایک نظر 214

افغانستان پر ایک نظر

افغانستان پچھلے تقریباً بیالیس تینتالیس سالوں سے لگاتار میدان جنگ بنا ہوا ہے کبھی روس گرم پانیوں تک رسائی کے لیے کشت وخون کی گولی کھیلتا ہے تو کبھی افغان خود اقتدار کے لالچ میں اپنوں کے گلے کاٹتے نظر آتے ہیں یہ تو اس دورانیے کی بات ہے اس کی پرانی تاریخ میں بھی کچھ اسی کا عکس نظر آتا ہے اس کی سرحد جنوب مشرق میں پاکستان مغرب میں ایران شمال مشرق میں چین شمال میں ترکمانستان ازبکستان اور تاجکستان کے ساتھ ملتی ہے اس کی سمندر تک رسائی پاکستان یا ایران کے ذریعے ہوتی ہے اس کے صوبہ بدخشاں کی ایک باریک پٹی اس کو چین کے ساتھ ملاتی ہے اور یہی باریک پٹی جو تقریباً 16 کلو میٹر چوڑی ہے پاکستان کو تاجکستان سے الگ کرتی ہے اس علاقے کو واخان کہا جاتا ہے افغانستان کو 34 تنظیمی یونٹس میں تقسیم کیا گیا ہے جن کو صوبہ کہا جاتا ہے اس کی ٹوٹل آبادی تقریبا چار کروڑ افراد پر مشتمل ہے اس میں سے تقریباً تیس لاکھ افغانی چالیس سالوں سے پاکستان میں رہ رہے ہیں ان میں سے چودہ لاکھ فقط اقوام متحدہ کے پاس رجسٹرڈ ہیں اسی طرح بہت بڑی تعداد ایران میں بھی موجود ہے اس کا رقبہ چھ لاکھ باون ہزاردو سو تیس (652230) مربع کلومیٹر ہے یہ ملک اکثروبیشتر شورش زدہ ہی رہاہے اس ملک میں 1973 تک بادشاہت رہی1880 سے انگریزوں کو اس پر قبضہ کی کوشش جاری تھی لیکن اس کے باسیوں کو داد دینا پڑے گی کہ جب انگریز بہادر کا پوری دنیا میں طوطی بولتا تھا پورا زور لگانے کے باوجود پورے ملک پر قبضہ نہ کرنے دیا 20 فروری 1919 کو امیر حبیب اللہ خان کے قتل کے بعد امان اللہ خان(یہ وہی امان اللہ خان ہے جس نے مصطفی کمال پاشا سے متاثر ہو کر کر یہاں پر بھی عورتوں کے پردہ وغیرہ پر پابندی لگانے کی کوشش کی) بادشاہ بنا تو اس نے انگریزوں کے ساتھ جنگ شروع کر دی اور آخر کار کار 19 اگست 1919 کو راولپنڈی کے مقام پر انگریزوں اور امان اللہ خان کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس کے تحت انگریزوں نے افغانستان کا پورا کنٹرول افغانیوں کے سپرد کر دیا یہ بھی اس ملک کو اعزاز حاصل ہے کہ ایک ڈاکو حبیب اللہ کلکانی المعروف بچہ سقہ نے اس ملک کے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور کچھ عرصہ حکومت کی ملک کا بادشاہ ظاہر شاہ بغرض علاج اٹلی گیا تو پیچھے روس کی ایما اور مدد کے ساتھ 17 جولائی 1973کو ایک فوجی بغاوت کے ذریعے سردار داؤد نے ملک پر قبضہ کر لیا اور بادشاہت کو ختم کر دیا تمام اختیارات خود سنبھال لیے سردار داؤد 1953سے 1962 تک ملک کا وزیر اعظم بھی رہا یہ پاکستان کا سخت مخالف تھا اور اتنا روشن خیال کہ کالج و یونیورسٹی میں لڑکیوں کے لئے سکرٹ لازمی کردی داڑھی پر پابندی لگا دی عیاشی اور بے حیائی میں یورپ کو مات دے دی۔ پردے پر پابندی لگا دی اسی لئے 27 دسمبر 1978 کو سردار داؤد کو پورے خاندان کے 30 افراد سمیت قتل کر کے اجتماعی قبر میں گمنام جگہ دفن کر دیا گیا 25دسمبر 1979 کو روسی فوج کابل میں داخل ہوئی روسی افواج کے قبضہ کے خلاف پاکستان سعودی عرب اور امریکہ نے افغانستان کی بھرپور مدد کی ان ممالک کی مدد سے اسلام پسند لوگوں نے بھر پور مقابلہ کیا جنہیں مجاہدین کے نام سے پکارا جاتا تھا آخر کار چھ سال کی محنت و کوشش سے 14 اپریل 1988 کو سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں افغانستان سے سوویت فوجوں کے انخلاء کے معاہدے پر دستخط ہوئے جس کے مطابق 15مئی1988 کو سوویت یونین فوجوں کی واپسی شروع کرے گا جنیوا میں اقوام متحدہ کے یورپی ہیڈکوارٹر میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل پیریزڈیکو کی
زیرصدارت پاکستان کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ زین نورانی کابل انتظامیہ کے وزیرخارجہ عبدالوکیل نے روسی وزیر خارجہ اور امریکی وزیر خارجہ نے بطور ضامن دستخط کئے دس سالہ جنگ لڑنے کے باوجود 1992تک سوویت اتحادی ڈاکٹر نجیب اللہ ہی ملک کے صدر رہے 1993 میں احمد شاہ مسعود‘گلبدین حکمت یار‘جنرل رشید دوستم کی فوجوں میں اقتدار کی جنگ شروع ہو گئی اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ احمد شاہ مسعود اور حکمت یار نے سوویت جنگ میں بھرپور شرکت کی تھی اور اب وہ اقتدار میں حصہ وافر کے متمنی تھے اسی لیے حکمت یار کو وزیراعظم اور احمد شاہ مسعود کو وزیر دفاع بنایا گیا لیکن نسلی تعصب نے قریب نہ آنے دیا اسی شورش و جنگ وجدل معصوم لوگوں کے ناحق خون کو بہتے دیکھ کر مدارس کے چند طلباء نے ملا عمر کی سربراہی میں تحریک اسلامی طالبان کی بنیاد رکھی طالبان قیادت ان کے خلاف کھڑی ہو گئی دیکھتے ہی دیکھتے بقوت شمشیر 1996 میں پورے ملک پر کنٹرول حاصل کر لیا2001 تک پورے افغانستان پر حکومت کی نائن الیون کے بعد اسامہ بن لادن کا بہانہ بنا کر امریکہ نے56 ممالک کی مدد سے افغانستان پر حملہ کر کے ان کی حکومت کو ختم کر دیا لیکن طالبان نے گوریلا کاروائیاں جاری رکھ کر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ناک میں دم کیے رکھا اور بلآخر اتحادیوں نے مذاکرات میں ہی عافیت سمجھی اور پچھلے سال 29 فروری کو دوحہ میں طالبان قیادت کے ساتھ امن معاہدہ کیا جس کے مطابق اس سال ستمبر تک تمام فوجوں کو افغانستان سے نکال لیا جائے گا فوجوں کا انخلاء کافی حد تک مکمل ہو چکا ہے اتحادیوں کے جانے کے ساتھ ہی طالبان نے تقریباً اسی فیصد ملک پر قبضہ کر لیا ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں