سیاسی پارٹیوں میں عروج زوال لگا رہتا ہے کبھی عوام میں ایک پارٹی مقبول تو کبھی دوسری اور ہمیشہ ہی پارٹیاں اپنی غلطیوں سے عوام میں غیر مقبول ہوتی ہیں کچھ پارٹیوں کو ان کے مقامی لیڈروں کی وجہ سے مقبولیت میں کمی ہوتی ہے جب بھی کوئی پارٹی زیادہ عرصہ اقتدار میں رہتی ہے اس کے رہنما بھی زیادہ ہو جاتے ہیں پھر آہستہ ٹکٹ کے امیدوار بھی بڑھتے جاتے ہیں اگر پارٹی کے منتخب ایم این اے اور ایم پی ایز میں اہلیت نہ ہو تو وہ اپنی پارٹی قیادت کو قائم نہیں رکھ سکتے اور ہار مقدر بن جاتی ہے ان میں زیادہ تر غلطیاں انہیں منتخب نمائندوں کی ہوتی ہے آجکل گوجرخان مسلم لیگ ن کے ساتھ ہی کچھ یہی حال چل رہا ہے کافی وقت سے یہاں دو دھڑے بن گے تھے ایک چوہدری محمد ریاض گروپ اور دوسرا راجہ جاوید اخلاص گروپ بن گیا تھا ان گروپوں کی وجہ سے ورکروں میں بھی کافی مایوسی پائی جاتی تھی اعلی قیادت نے بھی بہت بار کوشش کی کہ ان کے اختلافات کو ختم کیا جائے مگر یہ اختلافات ختم نہ ہو سکے راجہ جاوید اخلاص کے ساتھ سابق ایم پی اے چوہدری افتخار وارثی ساتھ دے رہے تھے افتخار وارثی کو چوہدری محمد ریاض سے شکوے شکایتیں تھیں سب سے بڑھ کر یہ تھی کہ انہوں نے 2013کے الیکشن میں چوہدری ریاض نے ان کی مخالفت کی اسی طرح چوہدری ریاض کو بھی افتخار وارثی سے یہی شکایت تھی کہ 2018کے الیکشن میں افتخار وارثی نے ان کی مخالفت کی ان دو رہنماوں کی لڑائی نے مسلم لیگ کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گزشتہ روز چوہدری محمد ریاض کے گھر پارٹی کی اعلی قیادت کی ہدایت پر میٹنگ بلائی گی جس میں سابق وفاقی وزیر حنیف عباسی،ڈویژنل صدر مسلم لیگ ن ملک ابرار،سابق صوبائی وزیر پیرزادہ راحت مسعود قدوسی،راجہ جاوید اخلاص،چوہدری محمد ریاض،ضلعی نائب صدر طیب بشیر قریشی،مسلم لیگ ن تحصیل گوجرخان کے صدر راجہ حمید شامل تھے شوکت بھٹی،راجہ علی اصغر اور چیئرمین او پی ایل چوہدری اشتیاق پاکستان میں نہ ہونے کی وجہ سے شامل نہ ہوسکے اس میٹنگ میں راجہ جاوید اخلاص کے ساتھ چلنے والے دو افراد کو شامل نہ کیا گیا ایک سابق ایم پی اے چوہدری افتخار احمد وارثی اور دوسرے راجہ بابر کرامت اس کے بعد دوسری میٹنگ راجہ جاوید اخلاص کے گھر بلائی گی جس میں تمام یونین کونسل کے چیرمین اور پارٹی ورکروں کو مدعو کیا گیا اور راجہ جاوید اخلاص کی طرف سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ انہوں نے سابق ایم پی ای افتخار وارثی کو دعوت دی مگر وہ نہ آئے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب پارٹی کی اعلی قیادت نے راضی نامے کی بات کی یا تو راجہ جاوید اخلاص کو اس سے پہلے اپنے ساتھ چلنے والے اپنی ساتھیوں کو اعتماد میں لینا چاہئے تھا یا پارٹی قیادت کو لیکر افتخار وارثی کے گھر جاتے اور ان کو راضی کر کے ساتھ لیکر آتے اسی میں ان کی عزت تھی جیسے ہی اجلاس کی خبریں آئی سب سے پہلا احتجاج مسلم لیگی رہنما راجہ بابر کرامت کی طرف سے سامنے آیا انہوں نے کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیا ان کا یہ بیان سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا راجہ بابر کرامت نے اپنا الگ سے ورکر کنونشن بلانے کا اعلان کر دیا ان کے اس اعلان کے ساتھ ہی نوجوانوں نے ان کا ساتھ دینا شروع کر دیا اس سارے معاملے میں سابق ایم پی اے افتخاروارثی ابھی تک خاموش ہیں ان کی طرف سے نہ میڈیا میں کوئی بیان آیا نہ کوئی اور نیوز ان کے قریبی دوست سے یہ سننے میں آیا کہ ان کو مایوسی ہوئی خیر خاموشی ایک بہت بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہوتی ہے اب دیکھتے ہیں ان کی طرف سے کیا ردعمل آتا ہے راجہ جاوید اخلاص جو جہاں اس راضی نامے میں اپنے دو قریبی ساتھیوں کو ناراض کرنا پڑا وہی پر چوہدری محمد ریاض کے چھوٹے بھائی چوہدری خورشید زمان ناراض ہو کر لندن چلے گے کچھ عرصہ پہلے چوہدری محمد ریاض نے ان کو لندن سے بلا کر سیاست میں شامل ہونے کا کہا اور اب خود ہی ان سے منہ موڑ لیا اسی وجہ سے وہ خاموشی سے واپس لندن چلے گے مسلم لیگی قیادت کے اس جلدبازی کے راضی نامے کارزلٹ اب کچھ اور انداز میں ہی نکلے گا وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے نوجوان لیڈر راجہ بابر کرامت نے بڑھاپا لیگ بمقابلہ نوجوان لیگ کا جو نعرہ لگایا اب وہ زور پکڑنے لگا اس سلسلے میں انہوں نے سابق ایم پی اے افتخار وارثی سے بھی ملاقات کی وقت آنے پر یہ ملاقات کے تاثرات بھی عوام کی سامنے ہوں گے راجہ بابر جیسے محنتی ورکر کو نظر انداز کر کے مسلم لیگ ن کا کامیاب ہونا مشکل نظر آتا ہے جس انداز میں وہ نوجوانوں میں مقبول ہو رہے ہیں اعلی قیادت کو بھی اس بارے میں سوچنا ہو گا اور اگر اختلافات ختم کرنے ہی ہیں تو سب کے کرنے ہوں گے اور تمام مسلم لیگوں کو ایک پیج پر لانا ہو گا نوجوان مسلم لیگی رہنما چوہدری جمیل اور مسلم لیگ تحصیل گوجر خان کے جنرل سیکرٹری چوہدری مزمل حسین کا بھی ابھی تک کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہو سکتا ہے اس سارے معاملے میں وہ کوئی رول ادا کریں اور یہ اختلافات ختم کریں تب ہی آمدہ الیکشن میں تحصیل گوجر خان سے مسلم لیگ ن کی کامیابی ممکن ہو گی۔
153