شاہد جمیل منہاس/ڈاکٹر وسیم انجم سے جب بھی ملاقات ہوئی علم کی بے بہا دولت سمیٹی۔ ہر وقت چہرے پر مسکراہٹ اور اپنائیت کا دریا ہے یہ انسان۔ بے بہا کُتب کے مصنف سے جب بھی بات کریں تو معلومات کے خزانے حاصل کرنے کے باوجود یہ شخص ایک ادنیٰ سا طالبِ علم محسوس ہوتا ہے۔ ان کی زندگی یقینا آپؐ کی احادیث کے مطابق رواں ہے۔مفہوم پاک ہے کہ ”گود سے گور تک علم حاصل کرو“ اور”علم حاصل کرو خواہ اس کے لیئے چین ہی جانا پڑے“۔ ڈاکٹر صاحب ایک بہترین لکھاری ہیں مگر بات انتہائی عاجزانہ لہجے میں کرتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں سے کُندن بن کر نکلنے والے ملکِ پاکستان کے بے شمارنوجوان بہت سے محکموں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر وسیم انجم ہمیشہ بات تمیز اور اعتراض دلیل اور سلیقے سے کرتے ہیں۔ اس مردِ قلندرکی ہر بات میں ایک خوبصورت پہلوپنہاں ہوتاہے۔ آپ فیڈرل اُردو یونیورسٹی میں شعبہ اُردو کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ہیں۔ اِ س مُلک کی خوش قسمتی کہ آپ ایم فِل اور پی ایچ ڈی کے طالب علم کے لیئے سیڑھیاں مہیا کرنے والے افراد میں شامل ہیں۔ اِسی لیئے تو ہمارے نوجوان سب سے اونچے دِکھائی دیتے ہیں۔ آپ کے ہاتھوں سے پی۔ایچ۔ڈی کرنے والے افراد آج اِس مُلک کا مستقبل سنوارنے کے لیئے انتھک محنت کر رہے ہیں۔ جب میری شخصیت، علمی اور ادّبی خدمات پر فیڈرل اُردو یونیورسٹی میں مقابلہ لکھا گیا تو ڈاکٹر صاحب نے چھوٹے بھائی کی طرح مجھے عزت دی اور جب بھی اُن سے ملاقات ہوئی پیار کے بندھن میں قید کر کے روانہ کرتے ہیں۔ کہوٹہ کے ایک گاؤں اسلوہا کی پہچان اوراپنے علاقے کی شان زندگی کے نشیب و فراز میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار یہ شخص علم کے میدان میں قندیل بن کر زندہ و تابندہ ہے۔ اِن کی زندگی جہد مسلسل کی ایک لازوال داستان پیش کرتی ہے۔ آپ ایل ایل ایم کرنے کے باوجود کچہری میں کام نہ کرسکے کیونکہ اُنہیں درس و تدریس سے جنون کی حد تک دلچسپی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے جو بھی کام کیا رچ بس کے کیا۔ آپ نے جب پروفیسر اسمائیل فاروقی کے زیرِ نگرانی ایل ایل ایم کا مقابلہ ”قرآن کی نظر میں میں دورِجدید“ مکمل کیا تو پروفیسر اسمائیل خان فاروقی کچھ اسطرح رقم طراز ہوئے”وسیم تم نے انتہائی محنت سے ہر موضوع پر اچھی طرح سیر حاصل بحث کی ہے۔ مقالہ اس بات کا مستحق ہے کہ اسے ایل ایل ایم کی بجائے پی ایچ ڈی کی ڈگری کے لیئے پیش کیا جائے۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ“۔ ڈاکٹر وسیم انجم نے جس موضوع پر بھی لکھا خوب لکھا۔ آپ کی شخصیت میں نکھار صرف اس لیئے ہے کہ آپ اِنسانوں سے بے حد پیار کرتے ہیں۔ اللہ کے بندوں سے محبت کرنے والے اللہ ہی کے تو ہوا کرتے ہیں۔ آپ نے اپنی تصانیف اور تخلیقات میں اپنے ہونے کا خوب پتا دیا۔ آپ نے مشتاق قمر کے خاکوں پر مشتمل ایک کتاب جس کا عنوان ہے”تابندہ لوگ“ مرتب کی۔ یہ کتاب اپنی مثال آپ ہے۔ ۴۹۹۱ سے لے کر۰۲۰۲تک کے حالات و واقعات کو ”ادّب شناسی“ کا نام دے کر پھولوں کی لڑی میں پرو دیا۔ مشتاق قمر کے افسانوں پر مشتمل ایک اور خوبصورت ترتیب جسے بار بار پڑھنے کا جی چاہتا ہے۔ جس کا نام ہے ”اپنا گھر“۔ اس کی ترتیب و تدوین انتہائی کھٹن مرحلہ تھا۔ مشکل ترین حالات سے نبردآزما ہونا ڈاکٹر صاحب کا بچپن کا مشغلہ ہے۔ اس کے علاو ہ آپ نے ”انجم نامہ“ لکھ کرانقلاب برپا کر دیا اورعلم کا سمندراُلٹا کرکے رکھ دیا۔ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کا ایک پہلو اُن کی مسکراہٹ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بڑی سے بڑی مشکل اور بڑے سے بڑا مسئلہ اچھے الفاظ کے ساتھ مسکراہٹ کے بندھن میں شامل ہو کر سُلجھ جایا کرتا ہے۔۔ آپ کی دلیل کے سامنے سب کو لاجواب ہوتے ہوئے دیکھا گیا۔ بات کرتے وقت دوسروں کو اتنا پیار دیتے ہیں کہ ناممکن کو ممکن کر دکھاتے ہیں۔ فیڈرل اُردو یونیورسٹی کے اسلام آباد کیمپس میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء و طالبات آپ سے مل کر حوصلہ افزاء ہو جاتے ہیں۔ آپ کی تربیت اور تعلیم کا ہر انگ ہی نرالہ ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر وسیم انجم ایک ایسے مبلغ کا نام ہے کہ جو تکالیف، ڈر اور مایوسی کی عکاسی کی بجائے اپنے شاگردوں کو مستقبل کی روشن صبح کی نوید سُنا کر راہِ راست پر لاکھڑا کرتا ہے۔ اگر آپ اس طرح کی حکمت عملی اختیار نہ کرتے تو بے شمار طلبہ و طالبات مایوس ہو کرعلم کے میدان سے راہِ فرار اختیار کر جاتے۔ یہ سب ڈاکٹر وسیم انجم کی حوصلہ افزائی ہے کہ جو گاؤں، دیہاتوں اور دیگر شہروں سے آتے ہوئے نوجوانوں کی لیئے بہترین زینہ مہیا کر کے اس دُنیا میں اپنی اور اُن کی آخرت کو سنوار رہے ہیں۔ربّ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ آپ کا سایہ ہم سب پر سلامت رکھے کہ ایسے عظیم افراد کسی مُلک و قوم کے لیئے روشنی کا مینار ہی تو ہوا کرتے ہیں۔
367