حضور نبی اکرم شفیع اعظمﷺکی مشہور ومعروف حدیث مبارکہ ہے جس کا مفہوم ہے کہ تم میں سے کوئی بھی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتاجب تک وہ اپنی جان مال‘اولاد‘خاندان حتی کہ جو کچھ اس دنیا میں ہے ان سب سے بڑھ کر وہ اپنے نبیﷺسے محبت ناکرے اب محبت کاتقاضاتو یہی ہے کہ اپنی زندگی عملی طور پرشریعت کے مطابق گزاریں لیکن اگر کوئی مسلمان دین پرمکمل عمل نہیں کرتاتواسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ مسلمان اپنے نبی سے محبت نہیں کرتا نبی اکرم شفیع اعظمﷺسے محبت مسلمان کے لئے لازم ملزوم اور اولین ترجیح ہے جو لوگ بھی نبی اکرم شفیع اعظمﷺقرآن مجید،یا دین اسلام کی کسی بھی تعلیم کے متعلق مسلمان کہ جذبات سے کھیلتے ہیں وہ گویاآگ سے کھیل رہے ہیں وہ یہ بات نظرانداز مت کریں کہ مسلمان اس طرح کی مذموم حرکات دیکھنے کہ بعدخاموش رہیں گے اس غلط فہمی کاشکار بہت سارے لوگ ہوئے اور پھر جب انھوں نے پیغمبر اسلامﷺکی توہین کی تو مسلمانوں نے انکو واصل جہنم کرناچاہا اور وہ اس میں کامیاب بھی ہوئے اسکی بہت سارے مثالیں ملتی ہیں خود نبی اکرمﷺکہ سامنے بھی گستاخ رسول کو واصل جہنم کیاگیا تو آپﷺنے خوشی کااظہارکیاپھر خلفائے راشدین کے دور میں بھی ایسے واقعات رونماء ہوے حتی کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے کسی نے اس مسئلہ پر پوچھاکہ اگر کوئی شخص جھو ٹے شخص سے نبوت کی دلیل مانگے تو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا دلیل مانگنے والادائرہ اسلام سے خارج ہوگا کیونکہ دلیل مانگنے کامطلب یہ ہے اسکو اپنے نبی کی ختم نبوت پر یقین نہیں اور پھر حدیث شریف کی روشنی میں مسلمان اپنے مال جان اولاد،خاندان،کنبہ‘قبیلہ حتی کہ ہرچیزسے بڑھ کر اپنے نبی سے محبت کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے حضور نبی اکرم شفیع اعظمﷺکی شان اقدس بیان کرنے سے انسان کی اپنی قدر وقیمت بڑھتی ہے ایسے ہی اگر کوئی شخص نبی اکرمﷺپر نعوذباللہ انگلی اٹھائیگاتو اس سیہمارے پیارے پیغمبر کی شان میں کوئی فرق نہیں پڑتاکیوں کہ اللہ نے قرآن مجید میں واضح طور پر یہ ارشاد فرمادیاہے کہ اے نبی ہم نے آپکے ذکرکوبلندکردیاہے اب جب اللہ نے ذکر بلند کردیا تو کسی کے بے ادبی کرنے سے اس میں کوئی فرق نہیں پڑتا ہاں البتہ اس بے ادب و گستاخ کی اپنی اصلیت ناپاک عزائم ضرور ظاہرہوجاتے ہیں اسی سلسلہ کی ایک کڑی گزشتہ واقعہ سے جڑی ہے کہ جب بدنام زمانہ ملعون سلمان رشدی پر امریکہ کی ایک تقریب میں شرکت کرنے پرایک نوجوان نے چاقو سے حملہ کرکہ اسے شدید زخمی کردیا جبکہ حملہ آورکوگرفتار بھی کرلیاگیا اس واقعہ کی بنیاد دیکھی جائے تو یہ بات عیاں ہے کہ سلمان رشدی 1989 سے لیکر آج تک مسلمانوں کہ جذبات کو مجروح کررہاہے کبھی پیغمبر اسلام اور کبھی دین اسلام کا مذاق اڑا رہاہے جس کے نتیجہ میں کوئی بھی مسلمان ایساقدم اٹھا سکتاہے سلمان رشدی نے جو گستاخی کی وہ ڈھکی چھپی بات نہیں بلکہ کتابی شکل میں موجود ہے یہ ملعون برطانوی مصنف اور نامہ نگار کہ طور پر جاناجاتا ہے اسکی کتب آج بھی بطور ثبوت مارکیٹ میں موجود ہیں جبکہ اسکی پیدائش ہندوستان میں برطانیہ آزادی سے دو ماہ قبل بمبئی میں ہوئی14برس کی عمر میں اسکو انگلینڈ تعلیم کی غرض سے بھیج دیاگیا اسکی عمر اس وقت 75برس ہے اور اس وقت یہ ملعون برطانوی شہری ہے پہلے یہ مسلم تھا بعد میں اسلام سے نکلنے کہ باوجود اس نے اپنا نام نہیں بدلا جو اسلام نے اسکو دیا ایسے لوگ دنیاو آخرت میں ذلیل ہوکر جہنم کا ایندھن بنیں گے یہ کتابوں کا مصنف ہے اسکی چوتھی کتاب جو سنہ 1988 کو لکھی گئی
جس کتاب کا نام نعوذ باللہ شیطان سے منسوب کر کے قرآن مجید کا مذاق اڑایاگیا اس توہین آمیز کتاب کہ شائع ہو تے ہی مسلمانوں نے احتجاج کیااس پر اسکے سابقہ ملک انڈیا نے بھی پابندی عائد کر دی مسلمانوں نے احتجاج کے ساتھ ساتھ اسکو دھمکی بھی دی جسکی وجہ سے یہ روپوش ہوگیاتھااسکو اضافی سکیورٹی بھی دی گئی جبکہ مسلمانوں کا غم وغصہ بڑھتاچلاگیا جنوری 1989 کو رسمی طور پر اس کتاب کی ایک کاپی کو نظر آتش کردیاگیااحتجاج کایہ سلسلہ وسیع ہوتاہوابرصغیرتک جا پہنچااور اس میں کئی جانوں کا ضائع بھی ہوا اس مصنف کے سر کی قیمت 30 لاکھ ڈالر رکھی گئی جبکہ اس کتاب کے مترجم ہی ہوتو شی کو متعدد بار چاقو سے زخمی بھی کیاگیااسی طرح اس کتاب کہ اطالوی مترجم ایٹور کو چاقو مارا گیا لیکن وہ بچ گیا ایک طرف پیغمبر اسلام کی شان میں بے ادبی و گستاخی کر کے مسلمانوں کے جذبات سے کھیلا جارہاہے جبکہ دوسری جانب یورپی عدالت یہ فیصلہ صادر کر چکی ہے کہ پیغمبر اسلامﷺکی توہین آزادی اظہار رائے نہیں ہے لیکن صرف فیصلہ ہی کافی نہیں بلکہ جس طرح ان ممالک میں دیگر جرائم پر فوری انصاف فراہم کیاجاتاہے انکو چاہیے کہ اس معاملہ میں بھی فوری انصاف فراہم کرکہ گستاخ رسول کو سخت سزا دی جائے تاکہ مسلمانوں کہ عظیم پیغمبر رہبرانسانیت، رحمت العالمین، نبی اکرم شفیع اعظم ﷺ کی شان میں بے ادبی، گستاخی و توہین کرنیوالے اپنے ناپاک عزائم سے باز رہیں ورنہ جو شروع سے ہوتاچلا رہا ہے اس تسلسل سے سب باخبرہیں یہ تسلسل رکنے اور ٹوٹنے والا نہیں ہے مسلمان اپناسب کچھ گنوا کر بھی تحفظ ناموس رسالت پر پہرہ دینا جانتے بھی ہیں اور سعادت بھی سمجھتے ہیں غازی علم الدین شہید مفکر اسلام علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کہ دور میں جب ختم نبوت پر قربان ہوئے تو علامہ اقبال باوجود علم و ادب کے بے تاج بادشاہ ہونے کہ نے تاریخی جملہ فرمایا تھاکہ آج علم الدین شہیدہم سب پر بازی لے گیاغازی علم الدین اگر چہ عمر میں کم تھے مگر رتبہ و سعادت مندی کابہت بڑا درجہ حاصل کیا کیوں کہ اس سعادت و نیک بختی کا مسلمان اظہار کچھ یوں کرتے ہیں کہ
میرے نبی سے میرا رشتہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے
لب پہ نعت نبیﷺکانغمہ،کل بھی تھااورآج بھی ہے
اورکسی جانب کیوں جائیں، اور کسی کو کیوں دیکھیں
اپنا سب کچھ گنبدخضرا کل بھی تھا اور آج بھی ہے
پست وہ کیسے ہو سکتا ہے،جس کو حق نے بلندکیا
دونوں جہاں میں انکا چرچا،کل بھی تھا اور آج بھی ہے
بتلا دیں ہر دشمن دین کو، غیرت مسلم زندہ ہے
ان پہ مر مٹنے کا جذبہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے
جس کے فیض سے بنجر سینوں نے شادابی پائی ہے
موج میں وہ رحمت کا دریا،کل بھی تھا اور آج بھی ہے
جن آنکھوں سے طیبہ دیکھا، وہ آنکھیں بیتاب ہیں
ان آنکھوں میں ایک تقاضا، کل بھی تھا اور آج بھی ہے